Tuesday, October 8, 2019

Gilgit Baltistan leader Open letter to PM Pakistan Imran Khan

محترم جناب عمران خان صاحب وزیر اعظم پاکستان
اسلام علیکم!
امید ہے کہ آپ متنازعہ گلگت بلتستان کا دورہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہونگے، اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد متنازعہ گلگت بلتستان کے عوام نے آپ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہے کیونکہ آپ نے متنازعہ گلگت بلتستان کے عوام کو حق خود ارادیت دینے اور اقوام متحدہ کی امن مشن کو خطے تک رسائی دینے کی حامی بھر لی ہے اس لئے4 اکتوبر کو بلتستان کی دار الحکومت سکردو میں آپکا شاندار استقبال ہوگا ۔ آپ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا بھی وزیر اعظم ہے لہذا آپ اس حقیقت سے با خبر ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بنیادی و انسانی حقوق سے یکسر محروم ہیں، آپ خوش قسمت ہیں کہ سکردوتک سیاسی جماعت کو پھیلا سکتے ہیں، جلسہ جلوس کر سکتے ہیں اور تقریر بھی کر سکتے ہیں، لیکن ستم ظریفی تو دیکھئے کہ گلگت بلتستان کی قومی و سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی سر زمین پر تنظیم سازی نہیں کر سکتے، جلسہ جلوس نہیں کر سکتے، عوام کی خدمت نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں کے قومی رہنماؤں کو شیڈول فور میں ڈال کر پابند رکھا گیا ہے۔ یہاں کے قومی رہنماؤں کی حالت بھی بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے کم نہیں ہیں۔جموں و کشمیر میں مودی سرکار نے سیاسی رہنماؤں کو قید میں رکھا ہوا ہے اور گلگت بلتستان میں بھی سیاسی رہنماء باباجان اور افتخار کربلائی اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی نے سٹیٹ سبجیکٹ کو ختم کیا ہے گلگت بلتستان میں بھی سٹیٹ سبیکٹ رولز کو ختم کیا ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہیں اور گلگت بلتستان میں بھی اظہار رائے پر قدغن لگا ہوا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سپیشل سٹیٹس ختم کیا گیا ہے لیکن گلگت بلتستان کو سپیشل سٹیٹس سے محروم رکھا گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب آپ تو خوش قسمت نکلے کہ آپ ہماری ووٹ ہماری رائے اور ہمارے خواہش کے بغیر ہمارا وزیر اعظم بن چکا ہے اور ہم اتنے مجبور و محکوم ہیں کہ ہم آپ کو وزیر اعظم بنانے کے لئے ووٹ تک نہیں دے سکتے، آپ ہمارے لئے قانون بناتے ہیں، آپ ہمارے لئے حکم نامہ جاری کرتے ہیں اور آپ ہماری مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ہم اتنے بے بس و لاچار ہیں کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی پر آہ بھی کرے تو غداری کے مقدمات میں گرفتار کئے جاتے ہیں، ہمیں تھانوں، عدالتوں اور قید خانوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر ٹارچر کئے جاتے ہیں۔ہم پر سفری پابندیاں لگائی جاتی ہیں، ہمارے شناختی کارڈ بلاک اور اکاؤنٹ منجمد کئے جاتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب72 سال بڑا عرصہ ہوتا ہے، ہماری تین نسلیں گزر چکی ہیں، ہمیں نہ پاکستان میں شامل کیا گیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق حکمرانی دی گئی، ہم سے جانوں کی قربانی تو لی گئی لیکن ہماری قربانیوں کا صلہ محرومی محکومی اور جبر و ستم کی شکل میں لوٹایا جاتا رہاہے۔ ہمارے جوان پاکستان کے بارڈرز پر اس لئے لڑتے رہے کہ شاید ہماری قربانی ہمیں پاکستانی بنانے میں مدددے گی لیکن 72 سال گزرنے کے بعد بھی ہم تنازعہ کشمیر کی سولی پر لٹکتے رہے، اور اب نو جوان نسل جان چکی ہے کہ گلگت بلتستان ہی تنازعہ کشمیر کی سانسیں ہیں اور گلگت بلتستان ہی تنازعہ کشمیر کی روح ہے، گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا چوتھا فریق ہے، تنازعہ کشمیر میں گلگت بلتستان ہی عالمی توجہ کا مرکز و محور ہے، اگر تنازعہ کشمیر پر امن ہونا ہے تو گلگت بلتستان پر ہونا ہے اور اگر تنازعہ کشمیر پر جنگ ہونی ہے تو بھی گلگت بلتستان کے حصول کے لئے ہونی ہے۔اگر تنازعہ کشمیر حل ہونا ہے تو گلگت بلتستان کی وجہ سے ہی حل ہونا ہے۔ اگر کشمیر خود مختار ہونا ہے تو بنیاد گلگت بلتستان ہے اور اگر تنازعہ کشمیر حل نہیں ہونا ہے تواس کی وجہ بھی گلگت بلتستان ہی ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب گلگت بلتستان کے عوا م مسئلہ کشمیر اپنی منظقی انجام تک پہنچنے تک اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام حق حکمرانی چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی سر زمیں پر اپنی رائے و خواہش کا نظام و انتظام چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی خطے پر اپنی حق رائے دہی سے قانون سازی چاہتی ہے، گلگت بلتستان کی عوام اپنی زمین پر اپنی حق ملکیت چاہتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنی تاریخی و ثقافتی تشخص چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام ہمسایہ ممالک سے آزادانہ نقل و حمل اور تجارت چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام معاشی و اقتصادی طورپر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔گلگت بلتستان کے عوام دنیا میں سر اٹھا کر چلنا چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام وہ تمام انسانی و بنیادی حقو ق چاہتی ہے جو انہیں اسلام نے دی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کی چارٹرمیں تسلیم شدہ ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب مجھے امید ہے کہ آپ اپنے دورے کے اس اہم اور تاریخی موقع پر اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948 ء کی قرار داد کی روشنی میں گلگت بلتستان میں خود مختار اور با اختیار " لوکل اتھارٹی حکومت " کے قیام کا اعلان فرمائیں گے اور گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کو روکنے کا اعلان کر کے مودی سرکار کی منہ پر زور دار طمانچہ ماریں گے اور اقوم عالم کو مثبت پیغام دیں گے کہ عمران خان صرف تقریر نہیں کرتا تقریر کو عملی جامہ بھی پہناتا ہے۔
آپ کا خیر اندیش
انجینئر منظور پروانہ
چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موء منٹ
بمقام شیڈول فور،سکردو بلتستان
مورخہ 3 اکتوبر 2019..................

Tuesday, February 26, 2019

Gilgit Baltistan-Advantages of State Subject Rules

سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے فوائد
سٹیٹ سبجیکٹ رولز پر گفتگو کرنے سے قبل ہمیں باشندگان ریاست اور غیر باشندگان ریاست کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے ۔ وہ تمام افراد جویکم نومبر 1947 ء سے قبل موجود ہ آٹھائیس ہزار مربع میل گلگت بلتستان میں مستقل رہائش رکھتے تھے اور رکھتے ہیں انہیں باشندگان ریاست کہا جاتا ہے۔ جبکہ وہ تمام افراد جو کہ یکم نومبر 947 1 ء کے بعد گلگت بلتستان میں مستقل یا عارضی طور پر رہائش رکھتے ہیں یا کاروبار کرتے ہیں یا ملازمت کرتے ہیں وہ غیر باشندگان ریاست کہلاتے ہیں۔ سٹیٹ سبجیکٹ رولز پر عمل در آمد کے لئے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں چند ممبران اسمبلی کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کو حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز اور مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین کے اراکین کی سخت مخالفت کی وجہ سے مسترد کئے جانے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاسی حلقوں میں ایک تازہ بحث چھڑ گئی ہے۔اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس قانون کی اطلاق سے گلگت بلتستان میں بد امنی پھیل سکتی ہے کیونکہ گزشتہ ستر سالوں سے لاکھوں غیر مقامی اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں عوامی املاک و ارضی پر قابض ہو چکے ہیں ان افراد کو گلگت بلتستان سے بے دخل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کی اکثریتی عوام کا مطالبہ ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کا نفاذ گلگت بلتستان کی بقاء و سلامتی کا مسئلہ ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے یہاں سٹیٹ سبجیکٹ رولز روز اول سے ہی نافذالعمل ہے لیکن انتظامی حکومت اس قانون کی خلاف کے مرتکب ہو رہی ہے ، لہذا اس خلاف ورزی کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی من پسند تشریح کرتے ہوئے یہ پرو پیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اس قانون پر عمل در آمد کا مقصد تمام غیر باشندگان ریاست( غیر مقامی) لوگوں کو گلگت بلتستان سے نکال باہر کرنا ہے ، در اصل ایسا با لکل نہیں ہے بلکہ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی نفاذ کا مقصد باشندگان ریاست کے حقوق اور غیر باشند گان ریاست کے فرائض کا تعین کرنا ہے۔ یہ معلوم کرنا ہے کہ کون متنازعہ گلگت بلتستان کا باشندہ ( National) ہے اور کون متنازعہ خطے میں اممی گرنٹ(Immigrant) ہے۔ باشند گان ریاست اور غیر باشندگان ریاست کے درمیان فرق واضع رکھنا کہ کس نے استصواب رائے کی صورت میں حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہے اور کس یہ حق حاصل نہیں ہوگا ۔باشندگان ریاست پر غیر باشندگان ریاست کی غیر متوازن آباد کاری سے مرتب ہونے والے منفی اثرات کا تدارک کرنا ہے تاکہ مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچایا جا سکے ۔مقامی ثْقافت ، زبان، تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کی دائمی بقا کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنا ہے۔
یہ قانون تنازعہ کشمیر کے حل کی بنیادی اکائی ہے ، حکومت پاکستان کی خواہشات کے مطابق کشمیر تنازعے پر استصواب رائے سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی بنیادوں پر ہی ہونا ہے ۔ بھارت نے جموں کشمیر میں اب تک 35A ایکٹ کے تحت سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو تحفظ دیا ہوا ہے اور بدلتے حالات کے ساتھ اس ایکٹ کو ختم کرنا چاہتی ہے اورحکومت پاکستان اس قانون کو ختم کرنے کے بھارتی عزائم کی سخت مخالفت کر رہی ہے ، اور بھارتی ہائی کمیشن کو اپنی تحفظات سے آگاہ کرتی رہی ہے کہ بھارت سٹیٹ سبجیکٹ رولز(35A) کو ختم کرنے سے باز رہے۔حکومت،گلگت بلتستان میں اس قانون کی پاسداری کو یقینی بنا کر اخلاقی جواز کے ساتھ جموں کشمیر میں اس قانون کو ختم کرنے کی بھارتی منصوبہ کو ناکام بنا سکتی ہے۔ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز پر عمل در آمد باشندگان ریاست اور غیر باشندگان ریاست دونوں کے مفاد میں ہیں جو کہ مختصرا درج ذیل ہیں۔
باشندگان ریاست کے لئے فوائد
۱۔ باشندگان ریاست کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہوگا جو کہ اس وقت دن بہ دن غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے اور باشندگان ریاست پر زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
۲۔ گلگت بلتستان کی عوام کی ملکیتی و اجتماعی اراضی ، زیر کاشت ،شاملات ، داس ،جنگلات اور چراگاہوں کو بچایا جا سکتا ہے جن پر باشندگان ریاست کی حق ملکیت تسلیم شدہ ہے
۳۔ گلگت بلتستان کی خالص مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل نہیں کر سکے گی۔
۴۔ گلگت بلتستان میں غیر قانونی طور پر آباد ہونے والے تارکین وطن کو روکا جا سکتا ہے تاکہ باشندگان ریاستکو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
۵۔ حکومت باشندگان ریاست کی ملکیتی زمینوں پر جبری قابض نہیں ہوگی ، اگر قومی مقاصد کے لئے زمین مطلوب ہوتو عوام کو معاوضہ دے کر حاصل کرے گی۔
۶۔غیر باشندگان ریاست کو غیر قانونی ڈومیسائل کی اجراء کا راستہ رک جائے گا۔ جس سے مقامی آبادی کو ملازمتوں میں جگہ ملے گی۔
۷۔ باشندگان ریاست کو حاصل سبسڈیز کا پورا پورا حق ملے گا جوکہ اس وقت غیر باشندگان ریاست کے ساتھ تقسیم ہو رہا ہے ۔
غیر مقامیوں کے لئے فوائد 
۱۔ غیر باشندگان ریاست کو گلگت بلتستان میں رہائش رکھنے اور کاروبار کرنے کے لئے قانونی اجازت نامہ حاصل ہوگا۔
۲۔ غیر باشندگان ریاست کی رجسٹریشن ہوگی اور کسی کو بھی گلگت بلتستان سے نہیں نکالا جا سکے گا سوائے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے۔
۳۔غیر باشندگان ریاست گلگت بلتستان کے قانونی عارضی شہریت کے حامل ہونگے۔
۴۔ غیر باشندگان ریاست کی جان و مال کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ وہ کاروبار چلانے اوراپنی زندگی گزارنے میں آزاد ہونگے۔
۵۔ غیر باشندگان ریاست کو پسندیدگی حاصل ہوگی کیونکہ یہ لوگ ریاستی قوانین کی روشنی میں گلگت بلتستان کی ترقی میں حصہ دار ہونگے۔
۶۔ غیر باشندگان ریاست کی فہرست اور کاروباری اجازت نامے حکومتی اداروں کے ریکارڈ پر ہونگے۔ جس سے امن و امان کو بہتر بنایا جا سکے گا۔
۷۔ غیر باشندگان ریاست کی کاروباری اجازت ناموں کی اجراء پر خطیر رقم حاصل ہوگا جو کہ گورنمنٹ ریوینیو میں اضافے کا باعث بنے گا۔
َََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan: Provisional Province proposal rejected

گلگت بلتستان کی قومی تشخص اور عبوری صوبہ
National Identity of Gilgit Baltistan and Provisional Province Demand 
سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی لارجز بنچ نے 17 جنوری 2019ء کو گلگت بلتستان کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت پراپنے فیصلے میں ایک بار پھر حکومت پاکستا ن کی دیرینہ موقف کا اعاہ کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے اس لئے گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کرکے صوبہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل سامنے نہیں آتا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی پیرا نمبر 13 میں لکھتا ہے کہ "دو خطوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعلق رکھنا پاکستان کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔1948 میں UNCIP نے ان خطوں کی مقامی خود اختیاراتی حکومت کی وجود کو تسلیم کیا ہے ( جوکہ حکومت پاکستان سے الگ تھلگ ہیں)۔ ہم یقیناًیہاں گلگت بلتستان کے لئے فکر مند ہیں۔ اس خطے کو متنازعہ جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی بنا پر پاکستان میں شامل نہیں کر سکتے۔ جبکہ یہ خطہ ہمیشہ حکومت پاکستان کی مکمل انتظامی قابو میں ہے"۔
سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان کی دیرینہ اور اصولی موقف پر سمجھوتہ کئے بغیر اور گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کی چھتری میں جگہ دئیے بغیر گلگت بلتستان میں انتظامی اصطلاحات کے بارے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے لئے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں نیا حکم نامہ تیار کریں ۔ متنازعہ گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان کی انتظامی گرفت کو مزید سخت کرنے کے لئے کچھ عدالتی احکامات بھی جاری کی ہیں اور ان اختیارات کو گلگت بلتستان کی عوامی منتخب نمائندوں سے اٹھا کر صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کو منتقل کئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں لوکل اتھارٹی حکومت دینے کا حکم صادر کیا ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر طرز کی انتظامی سیٹ اپ دینے کا کہا گیا ہے۔ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز جو کہ متنازعہ خطے کی بنیادی پہچان ہے اس کی خلاف ورزی سے بھی حکومت کو نہیں روکا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے گلگت بلتستان کے عوام کی صفوں میں سیاسی گرما گرمی پیدا کی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت پانچواں آ ئینی صوبہ کے مطالبے سے دستبردار ہوچکی ہیں اور غالب اکثریت کے درمیان اتفاق رائے پایا جانے لگا ہے کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بن سکتا اور عوام اس مطالبے پر بھی متفق ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کے دیگر حصوں کو حاصل حقوق ملنی چائیے۔ تا ہم متنازعہ کشمیر کے دیگر حصوں کو حاصل حقوق کے بارے میں مقامی سیاست دانوں اور سٹیک ہولڈرز میں ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ایک طبقہ فکر گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر طرز کی سیٹ اپ دلانے کے خواہش مند ہیں جو کہ انڈیا نے جموں وکشمیر کو خصوصی ایکٹ کے تحت دیا ہوا ہے ۔ ان کے خیال میں گلگت بلتستان کے لئے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو دی گئی انتظامی سیٹ اپ بہتر ہیں۔ یہ طبقہ حکومت پاکستان سے سوال کر رہا ہے کہ انڈیا دے سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں دے سکتا؟اس سیٹ اپ کا نام انہوں نے عبوری صوبہ رکھ دیا ہے اور نیا مطالبہ سامنے لے آئے ہیں ، اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائیں۔ عبوری صوبہ بنانے کے بعد جموں و کشمیر کو حاصل مراعات اور سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے بارے میں یہ طبقہ تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ عبوری صوبہ بنانے کے بعد سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی بحالی پر حکومت پاکستان کو قائل کرنا ایک نا ممکن امر ہے ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی تعلق کو برقرار رکھنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے اس لئے آئینی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جموں و کشمیر طرز کی صوبائی سیٹ اپ دینے کے لئے پہلے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک دوسرے میں ضم کرنا ہوگا اس کے بعد دونوں اکائیوں کو ملا کر پاکستان کاعبوری صوبہ بنانا ہوگا۔
دوسرا مکتب فکر گلگت بلتستان کی قومی تشخص کو چھیڑے بغیر اندرونی خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے جوکہ UNCIP اور شملہ معاہدے میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو دینے کا پابندہے ، اندورنی خود مختاری کا رول ماڈل حکومت پاکستان اپنے زیر انتظام آزاد کشمیر سیٹ اپ کو سمجھتی ہے اس لئے یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ حکومت پاکستان اپنے زیر انتظا م ایک متنازعہ حصہ آزاد کشمیر کو پہلے ہی انتظامی سیٹ اپ دے چکی ہے ، جبکہ گلگت بلتستان کو اس طرح کی انتظامی سیٹ اپ سے محروم رکھا گیا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان روز اول سے ہی ایک انتظامی یونٹ کا حصہ ہے جسے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کہا جاتا ہے ، ایک ہی انتظامی یونٹ کے ماتحت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو دو مختلف سیٹ اپ دیے گئے ہیں ۔ آزاد کشمیر کو ریاستی سیٹ اپ دی گئی ہے اور گلگت بلتستان کو صوبائی ۔لہذا اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے ماتحت دونوں خطوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیا جانا چائیے ۔اس لئے یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ متنازعہ خطے کے دو اہم فریقین کو برابری کی سطح پر حقوق مل سکے اور حکومت پاکستان پر گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا بین الاقوامی الزام کو رد کیا جا سکے ۔اس مقصد کے لئے نہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ دو تہائی اکثریت کی ۔ ابتدائی طور پر آزاد کشمیر ایکٹ کو گلگت بلتستان میں نافذ کرنے اور بعد میں بہتری لانے کے لئے اصلاحات لانے کی ضرورت ہوگی۔
اولذکر طبقے کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائیں گے تو گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی اور گلگت بلتستان قومی دھارے میں شامل ہونگے۔ گلگت بلتستان کے تین چار افراد قومی اسمبلی کے ممبر بن جائیں گے۔ 
آخرالذکر طبقہ فکر کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کوآئینی صوبہ کے بجائے عبوری صوبہ کا درجہ دینے سے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت توبرقرار رہے گی لیکن مسئلہ کشمیر سے بظاہر لا تعلق ہو جائے گا جس سے گلگت بلتستان موجودہ سپیشل سٹیٹس سے محروم ہوگی۔ بین الاقوامی طور پر اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پاکستان استصواب رائے سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور موجودہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر ماننے پر مائل ہے۔ گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رولزکا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گا اور بحالی کا مطالبہ بلا جواز ہوگا۔ حکمرانوں کو عبوری صوبہ کی آڑ میں گلگت بلتستان کی وسائل پر قبضہ کرنے ، ٹیکس لگانے اور سبسڈیز میں کمی لانے کا جواز مل جائیگا ۔ گلگت بلتستان میں عوامی زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے کر ہڑپ کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا ، گلگت بلتستان کی مقامی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے بڑے پیمانے پر غیر مقامیوں کو گلگت بلتستان میں بسایا جائے گااور بالخصوص سی پیک منصوبے کی وجہ سے غیر مقامی لوگ بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان منتقل ہونگے۔ اس سے گلگت بلتستان کی عوام کی ہر طرح سے استحصال ہوگی قومی اسمبلی میں نمائندگی کے نام پر تین چار افراد کو ملازمت ملے گی۔ عبوری صوبے کے ممبران قومی اسمبلی میں صرف تماشا بین ہونگے اگر انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا گیا توحکمران جماعت کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو نگے جس طرح موجودہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے تیس اراکین استعمال ہو رہے ہیں۔ 
پاکستان کی مستقل صوبوں کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی کے مشاہدے کے بعدیہ طبقہ فکر دلیل دیتی ہے کہ جہاں بلوچستان کے 40 ممبران ا قومی سمبلی بلوچستان کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں وہاں مبصر کے طور پر موجود گلگت بلتستان کے تین چار افراد گلگت بلتستان کے لئے کیا کر سکیں گے۔ یہ ممبران قومی اسمبلی میں نمائندگی کے باوجود گلگت بلتستان کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے جس سے گلگت بلتستان کے عوام میں احساس محرومی مزیدبڑھ جائے گی اور کچھ سالوں بعد گلگت بلتستان کی عوام کو "عبوری صوبہ" کو ختم کرنے کی تحریک چلانی پڑے گی ، اس سے بہتر یہی ہوگا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا غیر آئینی عبوری صوبہ نہیں بنایا جائے تاکہ لوگوں کی غیر مشروط جذبہ الحاق اور حب الوطنی کے بھرم قائم رہ سکے ۔ یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کی تہذیب و تمدن ، رہن سہن ، ثقافتی اقدار اور عوامی مزاج اور پاکستان کی چھوٹے آئینی صوبوں کی موجودہ حالات ، احسا س محرومی ، پسماندگی اور انسانی حقوق کی ابتر صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کو کسی بھی صورت گلگت بلتستان کی عوام کی بہتری کے لئے ایک مناسب حل نہیں سمجھتا۔ ان کا خیال ہے کہ عبوری صوبے کی نوازشات و کرامات گلگت بلتستان کی عوام کو موجودہ مراعات اور پاکستانی عوام کی ہمدردی و خلوص سے یکسر محروم کرنے کا سبب بنے گا اور عوام کی امیدیں دم توڑ دے گی جس سے استصواب رائے پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہونگے۔
حکومت پاکستان بدلتے عالمی حالات کے پیش نظر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دینے پر کافی سالوں سے سنجیدگی سے غور کررہی ہے جوکہ ملک کی ایک طاقت ور سٹیک ہولڈرز کی عدم رضامندی کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا ہے ۔سال 2018 ء میں سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات میں آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو ترجیح حاصل تھی اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کے بقول انہوں نے یہ سیٹ اپ لینے سے انکار کیا تھا ۔وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو لینے سے انکار کرنے کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی وزیر اعلیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے تا ہم اس میٹنگ میں موجود ایک بااثر بیورو کریٹ کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے صرف اور صرف اپنی دو سالہ اقتدار بچانے کے لئے قومی اقدار کو داؤ پر لگایا تھا ۔ اگر وہ اس سیٹ اپ کو قبول کرتے تو گلگت بلتستان کی موجودہ اسمبلی کو توڑا جانا تھا تاکہ گلگت بلتستان میں نئے نظام کے تحت دوبارہ انتخابات کرائے جا سکے۔ اس صورت میں وزیر اعلیٰ کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا اور مسلم لیگ نواز کی حکومت کا خاتمہ بھی لازمی تھا۔ اس لئے انہوں نے اس سیٹ اپ کو مستردکر دیا تاکہ اپنی کرسی اور پارٹی کی حکومت کو بچایا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نے اس سیٹ اپ کی آفر کو نہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں زیر بحث لایا ۔ نہ اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی گلگت بلتستان کے عوام کو کانوں کان خبر ہونے دی اورانتہائی پھرتی سے حاقان عباسی صاحب کو گلگت لائے اور2018 ء کا کالا قانون نافذ کر دیا اور عوام نے وزیر اعظم پاکستان کا جوتوں سے استقبال کر کے آرڈر 2018سے اپنی نفرت کا اظہار بھی کیا۔
آرڈر 2018ء پر عوامی مزاحمتی رد عمل کے نتیجے میں آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کا مطالبہ بھی شدت اختیار کر گیا تو وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے خود میڈیا کو بیان دیا کہ آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کی انہیں پیشکش ہوئی تھی جو انہوں نے مسترد کر دیا تھا، وزیر اعلیٰ نے کس طاقت کے حکم پر عوامی مطالبے اور حکومتی پیشکش کو مسترد کیا یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سر تاج عزیز کمیٹی میٹنگ سے آرڈر 2018ء لانے کے بجائے کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو قبول کرتا تو نہ آرڈر 2018ء کا اجراء ہوتا اور نہ ہے سپریم کورٹ کو جیوڈیشل آرڈر 2019ء جاری کروانے کی نوبت آتی۔ جو کام گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو کرنا تھا وہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فارق حیدر نے کر دکھایا ۔ آزاد کشمیر اسمبلی نے گلگت بلتستان کے بارے میں متفقہ طور پر آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دینے کی قرار داد منظور کروا کے ان لوگوں کا منہ بند کر دیا ہے جو ہر بات پر کہتے تھے کہ گلگت بلتستان کے حقوق میں کشمیری رکاوٹ ہیں۔ کشمیروں کو گلگت بلتستان کو حقوق دینے پر کوئی اعتراض نہیں رہا ۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام ایک ایجنڈے پر متفق ہو جائے تو ایک دن میں حکومت پاکستان سے اپنے جائز مطالبہ منو اسکتی ہے وہ سیٹ اپ جس کی حکومت پاکستان وزیر اعلیٰ کوپیشکش کر چکی ہے، آزاد کشمیر اسمبلی قرارداد پاس کر چکی ہے اوراقوم متحدہ کی قرار دادوں اور شملہ معاہدے میں تسلیم شدہ ہے۔
گلگت بلتستان کو اندونی خود مختاری (آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ )دے کر عمران خان بلا لہرا کر اور جنرل احسان محمود خان ڈنڈا ہوا میں گھما کرفخر سے کہہ سکیں گے کہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل پیرا ہے اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کی قربانیوں کے اعتراف میں اندرونی خود مختاری دے کر با اختیار بنا دیا گیا ۔ تا ہم گلگت بلتستان میںیو این سی آئی پی کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر ، گلگت بلتستان کے عوام کو حق حکمرانی اور حق ملکیت سے محروم رکھ کر ، گلگت بلتستان کے تجارتی راستوں کو بند رکھ کر ، گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور اور جیلوں میں قید رکھ کر ، گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کو روندکراورگلگت بلتستان میں انسانی حقوق کو پامال کر نے کے بعد گلگت بلتستان کو سر کا تاج کہے ، ماتھے کا جومرکہے، گردن کہے یا کمر کہے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر فی الحال گلگت بلتستان کی منفردقومی تشخص کو بحال رکھتے ہوئے اندرونی خود مختاری (آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ )ہی عوام کی مفاد اور پاکستان کی عظیم تر قومی مفاد میں ہے۔
تحریر: انجینئر منظور حسین پروانہ ، چئیرمین ، گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, January 26, 2019

Gilgit Baltistan: Judicial Order is connectivity of Colonialism

http://tehreernews.com/?p=16340&fbclid=IwAR1FshIU4qPYs4N-wjUDEUrdWG_dgABUlzTOAhVy-jMpkyMvmeYePkYxobU

Govt Pakistan Decided to Keep leaders on Watch list

G

Gilgit Baltistan leader Reject Supreme Court Order 2019 and demand for internal Autonomy


گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل داخلی خود مختاری ہے( منظور پروانہ)
عدالتوں سے فیصلے کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی لارجز بنچ کا فیصلہ تاریخی حقائق ، ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کے عین مطابق آئی ہے جبکہ جیوڈیشل ریفامز 2019 ء نو آبادیاتی نظام حکومت کا تسلسل ہے۔ اس سے قبل بھی 1999ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ دے چکی تھی کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور پاکستان میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔ گلگت بلتستان 17 جنوری 2019ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متنازعہ نہیں بنی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو غیرمتنازعہ بنا سکتی ہے ۔ اگر صوبہ یا آئینی حصہ بنانا ممکن ہوتا تو عمران خان ملک کا پانچواں صوبہ بنانے اور چوہدری ثاقب نثار ہیرو بننے کا یہ نادر موقع کبھی ضائع نہیں کرتے ۔ قوم پرست جماعتوں کا روز اول سے ہی یہی موقف رہی ہے کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کی بنیادی اور زیادہ اہمیت کے حامل اکائی ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل کی چابی ہے۔ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چئیرمین منظور پروانہ نے سپریم کورٹ کی حالیہ فیصلے پر رد عمل کر تے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے جہاں وفاقی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بے نقاب کیا ہے وہاں گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنماؤں اور کارکنوں کو سرخ رو کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کو متنازعہ کہنے پر قوم پرستوں کو غدار کہا جاتا تھا اور اب عوام جان چکی ہیں کہ غدار کون ہیں اوروفادار کون ہے۔ اس فیصلے نے گلگت بلتستان کے عوام کی آنکھیں کھول دی ہیں اور عوام کو اندرونی خود مختاری کے راستے پر گامزن کر دیا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ستر سالوں سے موجود ہے اور حکومت پاکستان دینے کا پابند بھی ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل داخلی خود مختاری ہے اور ا س داخلی خود مختاری کا رول ماڈل آزاد کشمیر کی ریاستی اسمبلی ہے ۔ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر سے زیادہ حساس اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل خطہ ہے لہذا گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر سے بھی زیادہ خود مختار اور آزاد ریاستی اسمبلی کی تشکیل اور عوامی خود اختیاراتی حکومت کا قیام انتہائی ضروری ہے ، بصورت دیگر عوام کی محرومی و محکومی عالمی طاقتوں کو گلگت بلتستان میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
منظور پروانہ نے کہا کہ حکومت وقت ضائع نہ کریں ، گلگت بلتستان کے عوام کسی منظم تحریک کے لئے کمر بستہ ہونے سے قبل ہی گلگت بلتستان میں آزاد و خود مختار قانون ساز اسمبلی کی قیام کا اعلان کرے، تمام انتظامی امور گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کرتے ہوئے یہاں سے تمام غیر مقامی سول بیوروکریسی کو واپس بلا لیں۔ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کو روکے ۔ خارجہ ، کرنسی اور دفاع کے علاوہ تمام شعبوں کو مقامی خود اختیاراتی حکومت کے حوالے کر کے عوام کی سر وں کو فتح کرنے کے بجائے دل جیتنے کا سامان پیدا کریں تاکہ جموں و کشمیر پر استصواب رائے کی صورت میں گلگت بلتستان کو حاصل کیا جا سکے ۔
گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ