Monday, July 13, 2020

Gilgit Baltistan..Misused of Law


گلگت  بلتستان میں انسداد دہشت گردی قانون کا بے جااستعمال
                  21جون  2018ء کو گلگت  بلتستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کا اضافہ ہوا۔ اس دن حکومت پاکستان نے گلگت  بلتستان میں قانون انسداد دہشت گردی کی شق شیڈول فور کا نا جائز اور بے جا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں امن پسندشہریوں سے آزادی سے زندگی گزارنے کا حق چھین لیا۔حکومت پاکستان نے انسداددہشت گردی کا قانون  پاکستان  میں دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کے لئے بنایا تھا تا کہ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ لیکن حکومت اس قانون کوغیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر متنازعہ گلگت  بلتستان میں حقوق کی بات کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ گلگت  بلتستان میں شیڈول فور میں شامل افراد پر کئے گئے غیر جانبدار نہ تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ گلگت  بلتستان میں اس قانون کا اطلاق نہ کالعدم مذہبی و سیاسی جماعتوں پر ہو رہا ہے ا اور نہ ہی  دہشت گردوں پر ہورہا ہے بلکہ شیڈول فورمیں ڈالے گئے افراد گلگت  بلتستان کے عوام کی بنیادی حقوق کے لئے موثر آواز اٹھا نے والے پرامن سیاسی رہنما ہیں۔ ابتدائی طور پر حکومت نے 183 افراد کو شیڈول فور میں ڈالا تھا،  ان میں سے اکثریت انفرادی اور اجتماعی طور پرگلگت  بلتستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھا نے والے سیاسی و سماجی کارکن تھے۔ ان پر امن شہریوں کوکسی بھی مذہبی و دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی شیدول فور میں خانہ پوری کے لئے شامل کئے گئے تھے، تاکہ ریاستی ادروں کا خوف ان کے دلوں پر چھائے رہے اور ضلعی سطح پر بنائی گئی کمیٹی کے آٖفیسران اپنی کارکردگی دکھا کر ترقی و انعامات حاصل کر سکے۔ کچھ لوگوں کو ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پربھی شیڈول فور میں ڈالے گئے او کچھ لوگوں کو ذاتی و خاندانی دشمنی، سیاسی مخالفت، سرکاری اداروں کے لئے سہولت کاری نہ کرنے کے پیش نظر شیڈول فور میں شامل کئے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
                شیڈول فور کی لسٹ پر کی گئی تحقیقات کے بعد انتہائی ہو شرباء انکشابات بھی سامنے آئے ہیں۔ گلگت  بلتستان میں سولین کاشیڈول فور میں نام ڈالنے اور نام نکالنے کا  اختیارسول انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ محکمہ پولیس گلگت  بلتستان کے سابق سربراہ ثنا ء اللہ نے شیڈول فور کی لسٹوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ سال  بیان دیا تھا کہ شیڈول فور میں شامل تمام بے گناہ افراد کو نکال دیا جائے گا  کیونکہ ان افراد کے خلاف کسی بھی تھانے میں کسی بھی قسم کی معمولی شکایت تک نہیں تا ہم اعلیٰ قوتوں کی سخت مخالفت اور مداخلت کی وجہ سے انہیں فہرست میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیابی نہیں ملی۔ پچھلے دو سال سے شیڈول فور سے نام نکالنے کے لئے سرکاری خفیہ اداروں کی مختلف لوگوں کے ساتھ ڈیل بھی چلتی رہی ہے۔ کافی لوگوں کو خفیہ ڈیل کے بعد شیڈول فورسے نکال لئے گئے ہیں اور ان سے عہد لیا گیا کہ وہ گلگت  بلتستان کی قومی اشیوز پر کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کریں گے۔ حکومتی اقدامات کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے اورگمنامی کی زندگی گزاریں گے۔ سرکاری سطح پر بھی اس بات کا اعتراف کیا  جا رہاہے کہ شیڈول فور کا گلگت  بلتستان میں استعمال غلط ہوا ہے اس لئے، شیدول فور سے اب تک تقریبا  200  سے زیادہ افراد کو بے گناہ قرار دے کر نکالے جا چکے ہیں جو کہ اس قانون کی بے جا استعمال کا  منہ بولتا ثبوت ہے۔ضلعی انتظامیہ نے ماؤرائے قانون ایک حلف نامہ بنایا ہے جس پر دستخط کرنے والوں کو بھی شیڈول فور سے نکالا جاتا ہے۔ یہ حلف نامہ جنیوا کنونشن اور آ ئین پاکستان کے دفعات سے متصادم ہیں جس میں مبینہ طور پر لوگوں کو حق رائے دہی، حق تنظیم سازی، حق اظہار رائے، حق ملازمت اور حق آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے۔
                گلگت اور دیامر ڈویژنز سے کافی تعداد میں قومی مذہبی و سیاسی رہنماؤں، ماہرین تعلیم، سماجی کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹز کو شیڈول فور میں ڈالے گئے تھے ان میں سے بعض افراد پر سی پیک کے خلاف سازش کے الزمات کے تحت مقدمات بھی بنائے گئے تاہم اس وقت ان میں سے بیشتر کو قید و بند کی اذیت دینے کے بعد بے قصور قرار دے کر رہا کر دئیے ہیں اور ان کے نام شیڈول فور سے بھی خارج کئے گئے ہیں۔ اور اب بھی بہت سے سیاسی کارکنوں کو شیدول فور پر رکھا جا رہا ہے تاکہ انہیں معاشی طور پر کمزور کر کے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دبایا جا سکے اور انہیں عوامی حقوق کی جد و جہد سے دور رکھا جا سکے۔ گلگت ڈویژن سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حسنین رمل، راجہ میر نواز میر، کرنل (ر) نادر حسن، ابرار بگورو،،یاور عباس، شیخ موسیٰ کریمی، شیخ شبیر حکیمی،دیدار علی، عنایت عبدالی، راجہ میر  نواز میر، یاور علی اور دیگر کئی سماجی و سیاسی کارکنوں کو عوامی حقوق کی ایک موثر آواز بننے کی جرم میں مسلسل شیڈول فور میں ر کھے جا رہے ہیں۔
                بلتستان ڈویژن سے  پانچ سرکردہ قومی رہنماؤں کو شیڈول فور میں ڈالے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فرد کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ان افراد کو شیڈول فور میں شامل کرنے کی بنیادی وجہ  بلتستان ڈویژن کی ضلعی شیڈول فورکمیٹی کے ممبران کی ذاتی خواہش بتائی جاتی ہے۔ بلتستان ڈویژن کو پر امن اور دہشت گردی سے پاک خطہ ہونے کی تاثر کو زائل کرنے کے لئے ضلعی کمیٹی نے ان افراد کو شیڈول فور میں ڈالنے کی سفارش کی تھی حالانکہ متعلقہ تھانوں اور سپیشل برانچ کی ڈیلی ڈائری میں بھی ان افراد کا کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت یا مقدمہ نہ ہونے کی رپورٹ سامنے آئی تھیں۔
                بلتستان ڈویژن سے سید آغا علی رضوی،جنرل سکریٹری ایم ڈبلیو ایم، منظور پروانہ سابق صدر بلتستان سٹوڈینس فیڈریشن و چئیرمین گلگت  بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ، شہزاد آغا ضلعی صدرپاکستان پیپلز پارٹی، شبیر مایار رہنماء  بلتستان یوتھ الائنس، شیخ  محمد علی کریمی رہنماء ایم ڈبلیو ایم شیڈول فور میں شامل ہیں۔ سید علی رضوی گلگت  بلتستان میں حکومت مخالف احتجاج کا سر غنہ اور ایک نڈر عوامی لیڈر ہے، گندم سبسڈی دھرنا اوراینٹی ٹیکس مارچ میں علی رضوی کی قائدانہ صلاحیت سے حکومت خوف زدہ ہیں اس لئے شیڈول فور پر رکھا ہوا ہے۔ شبیر مایار، شیخ کریمی اور غلام شہزاد آغا بھی مزاحمتی تحریکوں کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں جبکہ منظور پروانہ ایک حق پرست و قوم پرست رہنماء ہیں وہ سکردو حلقہ فور سے انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں، منظور پروانہ،  بلتستان اسٹوڈینس فیڈریشن کا صدر رہ چکا ہے۔منظور پروانہ گلگت  بلتستان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی قدآ ور شخصیت ہیں، منظور پروانہ کوعوامی حقوق کی جد وجہد کو عالمی سطح پر متعارف کرانے، گلگت  بلتستان میں کرپشن، اقربا پروری، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے پرشیڈول فور میں ڈالا گیا ہے۔ وہ گزشتہ بیس سالوں سے گلگت  بلتستان کے عوامی حقوق کے لئے سرگرم ہیں۔ ان کے بینک اکا ؤنٹ منجمد کئے گئے ہیں، شناختی کاڑد بلاک اور پاسپورٹ ضبط کئے گئے ہیں اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، ان کو انتخابی سیاست سے باہر رکھنے کے لئے بھی شیڈول فور کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
                انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان گلگت  بلتستان کی آٹھ مذہبی جماعتوں کو دہشت گردی کے شبہ میں کالعدم قرار دے چکی ہیں، ان آٹھ مذہبی جماعتوں کے سر کردہ رہنماؤں، سہولت کاروں اور کارکنوں کو شیڈول فور میں نہیں ڈالا گیا ہے انہیں اپنی سرگرمیاں کرنے کی کھلی آزادی دی ہوئی ہیں،بلکہ ان کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں کو گلگت  بلتستان اسمبلی میں اہم عہدوں پر فائز کئے گئے ہیں۔روز نامہ باد شمال میں ۱۱ مئی 2019  ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق حکومت نے کالعدم جماعتوں کے ان رہنماؤں کو پارٹی تبدیل کرنے کی صورت میں اپنے عہدوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے یہ بات ثا بت ہو تی ہے کہ کوئی بھی کالعدم جماعت کا رہنماء یا رکن،مسلم لیگ یا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر کے محفوظ راستہ حاصل کرسکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلگت  بلتستان میں کالعدم تنظیموں کی حکومتی سرپرستی جاری و ساری ہیں۔
                گلگت  بلتستان کے قوم پرست رہنماؤں کو بھی  اس طرح کے دباؤ کا سامناہے۔ضلع غذر سے بی این ایف اور بی این ایس او کے کافی کارکنوں کو پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد شیڈول فور سے نکالے گئے ہیں۔ شیڈول فورکو پارٹی وفاداریاں تبدیل کروانے  کے لئے بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گلگت  بلتستان میں کالعدم اور دہشت گرد قرار دیئے گئے کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکنوں کو شیڈول فور میں نہیں ڈالے گئے ہیں۔ سانحہ کوہستان، سانحہ یادگار چوک گلگت اور سانحہ چیلاس میں ملوث مشکوک دہشت گرد بھی شیڈول فور سے آزاد ہیں، دیامر میں سرکاری سکولوں کو جلانے اور کارگاہ نالہ میں پولیس جوانوں کو شہید کرنے والے کمانڈرز بھی شیڈول فور میں شامل نہیں تھے۔ اس سے بڑی انکشاف یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد علی خراسانی جس کا تعلق گلگت  بلتستان سے بتایا جاتا ہے اس کا نام بھی شیڈول فور کی لسٹ میں کبھی شامل نہیں کیا گیاہے۔
انسداد دہشت گردی کا قانون آئینی و قانونی طور پر کسی بھی صورت ایک متنازعہ خطے میں نافذ نہیں کیا جا سکتا، اس قانون کے اطلاق کا مقصد صرف اور صرف نو آبادیاتی نظام حکومت کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک کو کچل دینا ہے تاکہ حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو  دہشت گردی سے جوڑ کردبایا جا سکے، اور گلگت  بلتستان کے عوام کی بنیادی و انسانی حقوق کی آواز عالمگریت حاصل نہ کر سکے۔ کئی سال پہلے بھارت نے بھی جموں و کشمیر میں پوٹا نام سے شیڈول فور سے ملی جلی قانون کا نفاذ عمل میں لایا تھااوراب حکومت پاکستان گلگت  بلتستان میں شیڈول فور کا قانون لا کرعوام کی سروں کو فتح کرنے میں کوشاں ہے۔ متنازعہ خطے میں جہاں استصواب رائے کا ہونا باقی ہو، عوام کے سروں پر حکومت قائم کرنے کی بجائے دلوں میں جگہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی گئی تو تنازعہ گلگت  بلتستان کا سود مند تنائج سامنے آ سکتا ہے۔ سود مندنتائج  ایسی صورت میں ممکن ہے جب متنازعہ خطے میں انسانیت کش اور عوام دشمن کالے قوانین کی اندھا دھند استعمال سے گریز کرتے ہو ئے عوام کو آزادی سے جینے کا حق دیا جائے۔
( م ح    پ ..... چئیرمین گلگت  بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ)





Saturday, May 9, 2020

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Gilgit Baltistan : Land Reforms Acts sabotage the Disputed status of the Region

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, May 8, 2020

History of Gilgit Baltistan: Occupation to Disputed Status



گلگت  بلتستان، مفتوحہ سے متنازعہ
منظور حسین پروانہ چئیرمین گلگت  بلتستان یونائیٹڈ مؤمنٹ
گلگت  بلتستان کی کہانی بھی کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے،ڈوگرہ سامراج کی غلامی میں تقریبا  109 سال گزرنے کے بعد اس خطے کو یہاں کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی دلائی اور ڈوگرہ راج کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر کے گلگت  بلتستان کو مقبوضہ خطہ سے مفتوحہ خطے میں تبدیل کردیا۔یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی خطہ یا علاقہ فتح کر لیا جاتا ہے تو اسے اپنی ریاست میں شامل کر لیا جاتا ہے اور جب کوئی ریاست وجود میں آتی ہے تو قومی حکومت بنائی جاتی ہے۔ ڈوگروں سے لی گئی فتح کو قانونی شکل دینے کے لئے اپنی خود مختار اور آزاد ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ راجہ گلگت شاہ رئیس خان کو نومولود جمہوریہ گلگت کا پہلا صدر منتخب کیا گیا اور کرنل حسن خان کو کمانڈ ان چیف بنایا گیا۔ عبوری ریاست کی تشکیل پایہ تکمیل کو پہنچا  اور یوں گلگت  بلتستان یکم نومبر 1947 ء کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے بعد وجود میں آنے والی تیسری خود مختار اور آزاد ریاست تھی۔
                یہاں کی قیادت کی خواہش کہے یا میجر براؤن کی سازش اس  آزاد خطے کو پاکستان میں شامل کر نے کے لئے الحاق کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور  16 نومبر1947ء کو حکومت پاکستان نے اپنا نمائندہ سردار محمد عالم خان کو جانکاری کے لئے گلگت بھیجا۔سردار عالم خان نے گلگت پہنچتے ہی بھانپ لیا کہ یہاں کے عوام پر حکومت کرنا انتہائی آسان ہے، انھوں نے آتے ہی صدر مملکت کو فارغ کر دیا اور حکومت پاکستان کا ملازم لگا دیا اور خود پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے اس آزاد خطے کا سربراہ بن گیا۔ان تمام کاروائی کو کسی بھی طرح سے قانونی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی یہاں کے عوام کی توجہ اس طرف گئی کہ مستقبل قریب میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، عوام کو یہی بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے آپ کا الحاق قبول کرتے ہوئے اس خطے کو جموریہ گلگت سے گلگت ایجنسی میں تبدیل کر دیا ہے اور اپنا نمائندہ یہاں کی نظم و نسق سنبھالنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ کرنل حسن خان کی طرف سے اس اقدام پر مزاحمت کرنے کی کوشش بھی ہوئی جسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر دبایا گیا۔
یہ دنیا کا دوسرا مسلمہ اصول ہے کہ اگر کوئی ملک اپنی وجود کو برقرار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تو کسی قریبی ملک میں ضم ہو جاتا ہے، پاکستان میں الحاق کی با قاعدہ کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ مفتوحہ خطے کو قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور پاکستان کی آئین میں شامل ہو۔16 نومبر کو آزاد جمہوریہ گلگت عارضی طور پر پاکستان کی انتظامی کنٹرول میں آچکی تھی۔گلگت  بلتستان اب ایک مفتوحہ اور آزاد ریاست سے دوسری ریاست پاکستان میں ضم ہونے کی طرف جا رہا تھا  اور یہاں کے عوام پاکستان کا آئینی اورپاکستان کی طرف سے الحاق کی قبولیت کا منتظر تھی کیونکہ عوام سمجھتی تھی کہ گلگت  بلتستان کا مستقبل اب پاکستان کی انکار اور اقرار پر منحصر ہے، ہاں کی صورت میں گلگت  بلتستان نے پاکستان ہونا تھا نہ کی صورت میں گلگت بلتستان کی عارضی ریاستی حکومت کو چلانے اور اپنی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا تھا کیونکہ یہاں کے عوام مہاراجہ ہری سنگھ کی راجدانی سے اپنے
 خطے کو آزادی دلا چکی تھی اور واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں تھا۔
حکومت پاکستان نے گلگت  بلتستان کا انتظامی کنٹرول عارضی طور پر اپنے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے ہاتھوں میں لیا تھا تا ہم الحاقی خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی اثناء میں مہاراجہ کے الحاق نامہ کو لے کر بھارت سلامتی کونسل میں چلا گیا، سلامتی کونسل نے پاکستان کو ہری سنگھ کی ریاست میں مداخلت کی بابت ثمن کیا تو حکومت پاکستان بھی اقوام متحدہ میں پیش ہو گئی اور ان دونوں ممالک UNCIP کی تشکیل پر رضامندہوئے اور UNCIP کی پہلی قراردا د 13 اگست 1948 پر عمل در آمد کی حامی بھر لی گئی۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی منظوری کے بعد گلگت  بلتستان کی پاکستان سے الحاق  کی خواہش کا سنہرا اور  بلا مشروط باب تنازعہ کشمیر کا حل نکلنے تک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا کیونکہ گلگت  بلتستان مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں و کشمیر کی ایک اکائی تھی، کیونکہ پورا جموں و کشمیر متنازعہ بن گیاتھا۔ جب مہا راجہ کی الحاق کو قانونی حیثیت مل گئی تو ماتحت راجوؤں کی الحاق خود بخود کالعدم ہو گئی۔
                 حکومت پاکستان کے پاس دو آپشن تھے پہلا کہ سردار محمد عالم کو واپس بلا کر جمہوریہ گلگت کو تسلیم کرے، دوسرا گلگت  بلتستان کو بھی متنازعہ خطہ تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھے۔  لہذا دوسرے آپشن کو اپنایا گیا۔ حکومت پاکستان کے پالیسی سازوں کی سوچ تھی کہ اگر ہم گلگت  بلتستان کی یکم نومبر 1947ء کی حکومت کو قبول نہ کرے  تو گلگت  بلتستان متنازعہ ہی رہے گا اور یہاں کے عوام کی ووٹ بھی کشمیر پر استصواب رائے کی صورت میں ہماری کام آئے گی۔ اسی وجہ سے گلگت  بلتستان کی الحاق کی یک طرفہ کوشش مسترد ہوئی۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فوری بعد حکومت پاکستان نے معاہدہ کراچی کو ڈیزائن کر کے گلگت  بلتستان پر متنازعہ خطے کی حیثیت میں اپنا انتظامی گرفت کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی کو فوقیت دی۔ اس معاہدے کے سامنے آنے کے بعد گلگت  بلتستان کی مفتوحہ حیثیت اب متنازعہ حیثیت میں تبدیل ہو گیا۔گلگت  بلتستان کی نہ یکم نومبر کی آزاد حیثیت  میں رہی اور نہ ہی پاکستان سے الحاق کا خواب پورا ہوا۔
                 گلگت  بلتستان آج 73 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی پہچان سے خالی ہے، بھارت کے زیر اتظام لداخ جو کہ گلگت  بلتستان کا جز ہے، پھارت میں باقاعدہ ایک یونین ٹیریٹری کی حیثیت رکھتی ہے، لوک سبھا اور راج سبھا میں وہاں کے عوام کو نمائندگی حاصل ہے،لیکن گلگت  بلتستان دنیا کی کسی بھی ملک کا آئینی حصہ نہیں ہے اور نہ ہی گلگت  بلتستان کی اپنی کوئی آئین ہے۔ گلگت  بلتستان کی قسمت دیکھے کہ یہ خطہ ایک مقبوضہ خطہ سے مفتوحہ خطہ بن  چکا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے متنازعہ خطہ بن گیا۔ ہماری جیتی ہوئی بازی کوہم نے ہی ہرا دیا اور آج ہم شطرنج کے مہرے بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری حیثیت پر بات چیت کا تبادلہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ہوتا ہے، انڈین گلگت  بلتستان کو اپنی حصہ کہتی ہے تو حکومت  پاکستان گلگت  بلتستان کو متنازعہ کہتی ہے  حال ہی میں سپریم کورٹ کا گلگت  بلتستان میں الیکشن بارے فیصلہ آنے کے بعد انڈیا نے اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت  بلتستان اس کا اٹوٹ انگ ہے، حکومت پاکستان نے بھارت کی احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ پوری ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت  بلتستان  ایک متنازعہ خطہ ہے۔کس کا موقف کمزور ہے اور کس کا موقف جاندار ہے یہ گلگت  بلتستان کی عوام کا مسئلہ نہیں ہے، گلگت  بلتستان کی یکم نومبر 1947کی  خود مختار اور خود اختیاراتی حکومت کی بحالی ناگزیر ہو چکی ہے جوکہ اقوام متحدہ کہ قراردادوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی انتظامی سیٹ اپ،حکم نامہ یا کورٹ کا فیصلہ گلگت  بلتستان کی عوامی حقوق کا نعمالبدل نہیں ہو سکتی۔