معاہدہ کراچی ختم ہوا تو
گلگت بلتستان کی پوزیشن کیا ہوگی؟
منظور پروانہ چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ
معاہدہ کراچی کانام سنتے
ہی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے جوانوں
کا خون جوش مارنے لگتا ہے، گلگت بلتستان کے عوام اس معاہدے کو لے کر کشمیر کے عوام
سے نفرت کا ایک طوفان اپنی دل میں سمیٹے ہوئے
ہیں، اور کشمیریوں کو گلگت بلتستان کی غلامی
کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، ان کو خوش فہمی ہے کہ اگر معاہدہ کراچی نہ ہوئی ہوتی تو
گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہوتا جبکہ اس معاہدے کو لے کر کشمیر کے عوام بھی اس وقت
کی کشمیری قیادت کو وطن فروش اور غدار قرار دیتی ہے کیونکہ ان کو غلط فہمی ہے کہ معاہدہ
کراچی کی غلطی نہ کرتے تو گلگت بلتستان آزاد
کشمیر حکومت میں شامل ہوتی۔
ہم 73 سال پہلے کی قیادت کو قصور وار ٹھہرانے اور
عوام کو بے شعور کہنے کی بجائے اس معاہدہ کو 28 اپریل2020 کی تاریخ میں دیکھتے ہیں،
سردار ابراہیم اور سردارغلام عباس کی جگہ فاروق حیدر اور سردار عتیق ہیں، اور حکومت
پاکستان کے نمائندے مشتاق گورمانی کی جگہ امین گنڈا پوری ہے، اقوام متحدہ سے استصواب
رائے کی قرارداد آ چکی ہے، اور حکومت پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ زیادہ
سے زیادہ ووٹ لے کر پورے کا پوراجموں و کشمیر
حاصل کر سکے۔ دوسری طرف صدر گلگت بلتستان شاہ رئیس خان کی جگہ قاری حفیظ کو رکھ لیتے
ہیں۔امین گنڈا پوری معاہدہ کراچی کو من عن دوبارہ کمپیوٹڑ سے لکھ کر فارق حیدر اور
سردار عتیق اورحفیظ الرحمن کو اس معاہدے پر پاکستان کی ؑعظیم تر قومی مفاد اور قومی
سلامتی کے پیش نظر اس پردستخط کرنے کو کہتا ہے تو ان تینوں کا کیا رد عمل ہوگا۔اس میں
کوئی دو رائے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں یہ تینو ں
سیاسی و عوامی منتخب قیادت ایک لمحہ ضائع کئے بغیر معاہدہ کراچی پر دستخط کریں گے۔
ان تینوں کا دستخط لئے بغیر بھی صدر پاکستان عارف علوی معاہدہ کراچی کو صدارتی آرڈیننس 2020 کی شکل میں جاری کرے تو بھی نہ آزاد کشمیر
اور گلگت بلتستان کی قیادت میں اتنی جرات ہے
کہ اسے ماننے سے انکار کرے اور نہ ہی یہاں کے عوام میں اتنی ہمت ہے کہ اسے مسترد
کرے۔73 سال گزرنے کے بعد بھی ہماری قیادت اور عوام معاہدہ کراچی کو مسترد کرنے کی پوزیشن
میں نہیں ہے اور ہم مردے اکھاڑنے والی بیانات دے کر بڑے پھندے خان بننے کی ناکام کوشش
کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر معاہدہ کراچی پر دستخط کرنے والوں کو گالیاں دینے سے
پہلے اپنی گریباں میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ ہم
آج معاہدہ کراچی کو ختم کرنے
کی پوزیشن میں کیوں نہیں ہیں؟ ہمارے اوپر تو
معاہدہ کراچی سے بھی بدتر قسم کے آرڈر اور کالے قانون نافذ ہو چکی ہیں اور مسلسل نافذہو
رہی ہے ہمارے اندر ان آرڈرز کو مسترد کرنے کی جرات کیوں نہیں؟ ہمارے پاس اس کالے قوانین
کو نا منظور کہنے کی ہمت کیوں نہیں؟
معاہدہ کراچی میں آزاد کشمیر کو کسی حد تک با اختیار رکھا
گیا ہے، جو کہ آزاد کشمیر کی قیادت کی دانشمندی ہے، گلگت بلتستان کو اس معاہدے میں شامل ہی نہیں رکھا گیا
تھا کیونکہ حکومت پاکستان اس وقت گلگت بلتستان
کی قیادت کو اس اہل ہی نہیں سمجھتی تھی کہ ان سے اس معاہدے کی بابت رائے لی جائے اور دوسری اہم بات یہ تھی کہ گلگت بلتستان کی قیادت الحاق پاکستان کے نام پر خطے کی
قیادت سردار محمد عالم کو تفویض کر کے فارغ ہو چکی تھی، پاکستان کی قیادت کو اپنی قیادت
مان چکی تھی، معاہدہ کراچی میں کشمیری قیادت
نے گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں کی ہے بلکہ
حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی نمائندگی
کی ہے، اس معاہدے میں صرف ایک پوائنٹ کے ذریعے حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کی قیادت
کو بتایا کہ پا کستان پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت گلگت اور لداخ کے انتظامات کو چلائے
گی، اس پر کشمیری قیادت نے مزاحمت اس لئے نہیں کی ہوگی کیونکہ آزاد کشمیر سے گلگت بلتستان کی انتظامی معاملات کو سنبھالنا ممکن نہیں
تھا، دوسری وجہ حکومت پاکستان نے اس بات کی
یقین دہائی کرائی تھی کہ گلگت بلتستان کے انتظامی
معاملات وزارت امور کشمیر کے ماتحت ہونگے، جس سے انتظامی طور پر گلگت بلتستان آزاد کشمیر سے منسلک ہی تصور ہوگا۔
یہ معاہدہ گلگت بلتستان کی اس وقت کی قیادت کے آنکھوں کے سامنے
ہوا تھا جو یہ راگ الاپتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ ہم نے ڈنڈوں
سے آزادی لی اور خط اور ٹیلی گرام دے کر قائد اعظم کو گلگت بلتستان تحفے میں دیا اور بلا مشروط الحاق کیا، گلگت بلتستان
کی الحاقی قیادت نے معاہدہ کراچی پر احتجاج کیوں نہیں کیا۔ یہ معاہدہ الحاق پاکستان
کی نفی کرتی تھی، یہ معلوم ہوتے ہوئے اس پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کی گئی۔ حکومت
پاکستان کو خط کیوں نہیں بھیجا کہ گلگت بلتستان
کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے، حکومت پاکستان سے یہ پوچھنے کی ہمت کیوں نہ ہوئی کہ
ہماری الحاق کا کیا بنا اور گلگت بلتستان کو
آئینی حقو ق دینے کے بجائے تنازعہ کشمیر سے کیوں جوڑا گیا ۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جنہیں
تسلیم کرنے اور اپنی قومی قیادت کی کمزوریوں اور غلطیوں یا اپنی مجبوریوں کو کھلے دل
سے تسلیم کرنے کے بجائے ہم معاہدہ کراچی کو کشمیریوں کی سازش قرار دے کر اس معاہدے
کے اصل کرداروں کو محفوظ راستہ دے رہے ہیں اور اعزازات لینے، مراعات لینے کے لئے لائن
میں کھڑے ہیں،اپنی حب الوطنی کی زبانی دعوے کا بھرم رکھنے کے لئے ہم آج بھی حقائق سے
چشم پوشی کر رہے ہیں اسی وجہ سے غلامی اور زہنی پسماندگی نے گلگت بلتستان میں ڈھیرے جما لئے ہیں اور ہم آج بھی کٹھ
پتلیوں کی طرح غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں نہ صرف کھیل رہے ہیں بلکہ ناچ بھی
رہے ہیں۔
چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ اس وقت ہماری قوم میں بہت شعور آچکی ہے، ہماری سیاسی و
مذہبی قیادت بلوغت کو پہنچی ہے، ہم میں اتحاد و اتفاق موجود ہیں، ہم اپنے حقوق چھین
کر لینے کے لئے آمادہ ہیں، آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان معاہدہ کراچی کو ختم کرنے کے لئے ایک صفحے پر ہیں اور حکومت پاکستان
بھی ہماری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس معاہدے کو ختم کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر
حکومت پاکستان اس معاہدے سے دستبردار ہوئی تو کیا کسی نے سوچا ہے کہ آزاد کشمیر کی
کیا حیثیت ہوگی اور گلگت بلتستان کی کیا پوزیشن
ہوگی۔ معاہدہ کراچی کی رو سے گلگت بلتستان
کا انتظامی کنٹرول عارضی طور پر حکومت پاکستان کو دی گئی ہے اگر یہ معاہدہ ختم ہوا
تو گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول آزاد کشمیر
حکومت کے ماتحت ہو جائے گی، آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان ایک انتظامی یونٹ میں آجائے گی۔ کیا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے والا کوئی زمینی راستہ ہے،اس معاہدے
کو ختم کرنے کی صورت میں دوسرا آپشن یہ ہوگا کہ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دے۔ اس
کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں بچتا، جو آپشن گلگت
بلتستان کی عوام کے ذہنوں میں ڈلا گیا ہے کہ معاہدہ کراچی ختم ہوا تو گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بنے گا یہ بات کسی بھی
صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر سے کسی بھی صورت الگ نہیں
کی جا سکتی اور آزاد کشمیر کے بغیر پاکستان میں شامل بھی نہیں کر سکتی جس کی بات پاکستان
کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں میں بھی واضع طور پر موجود ہیں۔
گلگت بلتستان کے
عوام کو اب بھی ہوش کے ناغن لینا ہوگا اور اپنی قومی حقوق کے لئے ایک ایجنڈے پر آنا
ہوگا، معاہدہ کراچی کالعدم ہونے کی صورت میں ہمیں کس حیثیت میں اپنی تشخص و آزادی کو
بحال کرنا ہے اس پر سنجیدگی سے غور و حوض کرنا ہوگا، قومی سوال کے حل کے لئے قومی جواب
تیار کرنا ہوگا۔حکومت پاکستان نے معاہدہ کراچی
میں گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کی
سیٹ اپ کیوں نہیں دیا اور اس وقت اس طرح کی سیٹ اپ دینے پر آمادہ کیوں نہیں؟ ان سولات
کے جوابات انتہائی تلخ ہیں جنہیں لکھنے کے لئے اظہار رائے کی مکمل آزادی چائیے جو کہ
کم سے کم ہمیں حاصل نہیں ہیں کیونکہ ہم سچ لکھتے ہیں۔سچ نہ عوام سننا چاہتی ہے اور
نہ ہی نوجوانوں کو سچ میں دلچسپی ہے۔
…………………………………………………………………..
No comments:
Post a Comment