Tuesday, June 29, 2021

Pakistan is misusing anti terrorisms law in Gilgit Baltistan on rights activists

 گلگت بلتستان میں انسداد دہشت گردی قانون کا نا جائزاستعمال

21جون 2018ء کو گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کا اضافہ ہوا۔ اس دن حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان میں قانون انسداد دہشت گردی کی شق شیڈول فور کا نا جائز اور بے جا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں امن پسندشہریوں سے آزادی سے زندگی گزارنے کا حق چھین لیا۔انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنی رپورٹ میں 2020 کہا ہے کہ حکومت پاکستان انسداد دہشت گردی کی قانون کو گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کو تنگ کرنے کے لئے ناجائز استعمال کر رہی ہے، حکومت پاکستان نے انسداددہشت گردی کا قانون پاکستان میں دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کے لئے بنایا تھا لیکن حکومت اس قانون کوغیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر متنازعہ گلگت بلتستان میں حقوق کی بات کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں شیڈول فور میں شامل افراد پر کئے گئے غیر جانبدار نہ تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ گلگت بلتستان میں اس قانون کا اطلاق نہ کالعدم مذہبی و سیاسی جماعتوں پر ہو رہا ہے ا اور نہ ہی دہشت گردوں پر ہورہا ہے بلکہ شیڈول فورمیں ڈالے گئے افراد گلگت بلتستان کے عوام کی بنیادی حقوق کے لئے موثر آواز اٹھا نے والے پرامن سیاسی رہنما اور کارکن ہیں۔ ابتدائی طور پر حکومت نے 183 افراد کو شیڈول فور میں ڈالا تھا، ان میں سے اکثریت انفرادی اور اجتماعی طور پرگلگت بلتستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھا نے والے سیاسی و سماجی کارکن تھے۔ ان پر امن شہریوں کوکسی بھی مذہبی و دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی شیدول فور میں خانہ پوری کے لئے شامل کئے گئے تھے، تاکہ ریاستی ادروں کا خوف ان کے دلوں پر چھائے رہے اور ضلعی سطح پر بنائی گئی کمیٹی کے آٖفیسران اپنی کارکردگی دکھا کر ترقی و انعامات حاصل کر سکے۔ کچھ لوگوں کو ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پربھی شیڈول فور میں ڈالے گئے او کچھ لوگوں کو ذاتی و خاندانی دشمنی، سیاسی مخالفت، سرکاری اداروں کے لئے سہولت کاری نہ کرنے کے پیش نظر شیڈول فور میں شامل کئے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
شیڈول فور کی لسٹ پر کی گئی تحقیقات کے بعد انتہائی ہو شرباء انکشابات بھی سامنے آئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں سولین کاشیڈول فور میں نام ڈالنے اور نام نکالنے کا اختیارسول انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ محکمہ پولیس گلگت بلتستان کے سابق سربراہ ثنا ء اللہ نے شیڈول فور کی لسٹوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دو سال قبل بیان دیا تھا کہ شیڈول فور میں شامل تمام بے گناہ افراد کو نکال دیا جائے گا کیونکہ ان افراد کے خلاف کسی بھی تھانے میں کسی بھی قسم کی معمولی شکایت تک نہیں تا ہم اعلیٰ قوتوں کی سخت مخالفت اور مداخلت کی وجہ سے انہیں فہرست میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیابی نہیں ملی۔ پچھلے دو سال سے شیڈول فور سے نام نکالنے کے لئے سرکاری خفیہ اداروں کی مختلف لوگوں کے ساتھ ڈیل بھی چلتی رہی ہے۔ کافی لوگوں کو خفیہ ڈیل کے بعد شیڈول فورسے نکال لئے گئے ہیں اور ان سے عہد لیا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کی قومی اشیوز پر کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کریں گے۔ حکومتی اقدامات کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے اورگمنامی کی زندگی گزاریں گے۔ سرکاری سطح پر بھی اس بات کا اعتراف کیا جا رہاہے کہ شیڈول فور کا گلگت بلتستان میں استعمال غلط ہوا ہے اس لئے، شیدول فور سے اب تک تقریبا 200 سے زیادہ افراد کو بے گناہ قرار دے کر نکالے جا چکے ہیں جو کہ اس قانون کی بے جا استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت بھی 36 افراد کو شیڈول فور میں رکھے گئے ہیں۔ضلعی انتظامیہ نے ماؤرائے قانون ایک حلف نامہ بنایا ہے جس پر دستخط کرنے والوں کو بھی شیڈول فور سے نکالا جاتا ہے۔ یہ حلف نامہ جنیوا کنونشن اور آ ئین پاکستان کے دفعات سے متصادم ہیں جس میں مبینہ طور پر لوگوں کو حق رائے دہی، حق تنظیم سازی، حق اظہار رائے، حق ملازمت اور حق آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے۔
گلگت اور دیامر ڈویژنز سے کافی تعداد میں قومی مذہبی و سیاسی رہنماؤں، ماہرین تعلیم، سماجی کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹز کو شیڈول فور میں ڈالے گئے تھے ان میں سے بعض افراد پر سی پیک کے خلاف سازش کے الزمات کے تحت مقدمات بھی بنائے گئے تاہم اس وقت ان میں سے بیشتر کو قید و بند کی اذیت دینے کے بعد بے قصور قرار دے کر رہا کر دئیے ہیں اور ان کے نام شیڈول فور سے بھی خارج کئے گئے ہیں۔ اور اب بھی بہت سے سیاسی کارکنوں کو شیدول فور پر رکھا جا رہا ہے تاکہ انہیں معاشی طور پر کمزور کر کے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دبایا جا سکے اور انہیں عوامی حقوق کی جد و جہد سے دور رکھا جا سکے۔ گلگت ڈویژن سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حسنین رمل، کرنل (ر) نادر حسن، شیخ مرزا علی، سابق ممبر اسمبلی دیدار علی،یاور عباس، افتخار احمد، فٖضل احمد، راجہ ناصر، شاہد حسین اور دیگر کئی سماجی و سیاسی کارکنوں کو عوامی حقوق کی ایک موثر آواز بننے کی جرم میں مسلسل شیڈول فور میں ر کھے جا رہے ہیں۔
بلتستان ڈویژن سے پانچ سرکردہ قومی رہنماؤں کو شیڈول فور میں ڈالے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فرد کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ان افراد کو شیڈول فور میں شامل کرنے کی بنیادی وجہ بلتستان ڈویژن کی ضلعی شیڈول فورکمیٹی کے ممبران کی ذاتی خواہش بتائی جاتی ہے۔ بلتستان ڈویژن کو پر امن اور دہشت گردی سے پاک خطہ ہونے کی تاثر کو زائل کرنے کے لئے ضلعی کمیٹی نے ان افراد کو شیڈول فور میں ڈالنے کی سفارش کی تھی حالانکہ متعلقہ تھانوں اور سپیشل برانچ کی ڈیلی ڈائری میں بھی ان افراد کا کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت یا مقدمہ نہ ہونے کی رپورٹ سامنے آئی تھیں۔
بلتستان ڈویژن سے سید آغا علی رضوی،جنرل سکریٹری ایم ڈبلیو ایم، منظور پروانہ سابق صدر بلتستان سٹوڈینس فیڈریشن و چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ، شہزاد آغا ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی، شبیر مایار رہنماء بلتستان یوتھ فیڈریشن، شیخ محمد علی کریمی رہنماء ایم ڈبلیو ایم شیڈول فور میں شامل ہیں۔ سید علی رضوی گلگت بلتستان میں حکومت مخالف احتجاج کا سر غنہ اور ایک نڈر عوامی لیڈر ہے، گندم سبسڈی دھرنا اوراینٹی ٹیکس مارچ میں علی رضوی کی قائدانہ صلاحیت سے حکومت خوف زدہ ہیں اس لئے شیڈول فور پر رکھا ہوا ہے۔ شبیر مایار، شیخ کریمی اور غلام شہزاد آغا بھی مزاحمتی تحریکوں کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں جبکہ منظور پروانہ ایک حق پرست و قوم پرست رہنماء ہیں وہ سکردو حلقہ فور سے انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں، منظور پروانہ، بلتستان اسٹوڈینس فیڈریشن کا صدر رہ چکا ہے۔ منظور پروانہ کوعوامی حقوق کی جد وجہد کو عالمی سطح پر متعارف کرانے، گلگت بلتستان میں کرپشن، اقربا پروری، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے پرشیڈول فور میں ڈالا گیا ہے۔ وہ گزشتہ بیس سالوں سے گلگت بلتستان کے عوامی حقوق کے لئے سرگرم ہیں۔ شیڈول فور میں شامل تمام افراد ا کے بینک اکا ؤنٹ منجمد کئے گئے ہیں، شناختی کاڑد بلاک اور پاسپورٹ ضبط کئے گئے ہیں اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔حال ہی میں دیامر سے مبشر آر بی کے اور عثمان علی قریشی کو شیڈول فور میں ڈالا گیا ہے انہیں دیامر بھاشہ ڈیم پر مقامی لوگوں کی حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانے پر شیڈول فور کی لسٹ پر ڈالا گیا ہے
انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کی آٹھ مذہبی جماعتوں کو دہشت گردی کے شبہ میں کالعدم قرار دے چکی ہیں، ان آٹھ مذہبی جماعتوں کے سر کردہ رہنماؤں، سہولت کاروں اور کارکنوں کو شیڈول فور میں نہیں ڈالا گیا ہے انہیں اپنی سرگرمیاں کرنے کی کھلی آزادی دی ہوئی ہیں،بلکہ ان کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں کو گلگت بلتستان اسمبلی میں اہم عہدوں پر فائز کئے گئے ہیں۔روز نامہ باد شمال میں ۱۱ مئی 2019 ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق حکومت نے کالعدم جماعتوں کے ان رہنماؤں کو پارٹی تبدیل کرنے کی صورت میں اپنے عہدوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے یہ بات ثا بت ہو تی ہے کہ کوئی بھی کالعدم جماعت کا رہنماء یا رکن،مسلم لیگ یا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر کے محفوظ راستہ حاصل کرسکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان میں کالعدم تنظیموں کی حکومتی سرپرستی جاری و ساری ہیں۔
گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنماؤں کو بھی اس طرح کے دباؤ کا سامناہے۔ضلع غذر سے بی این ایف اور بی این ایس او کے کافی کارکنوں کو پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد شیڈول فور سے نکالے گئے ہیں۔ شیڈول فورکو پارٹی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں کالعدم اور دہشت گرد قرار دیئے گئے کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکنوں کو شیڈول فور میں نہیں ڈالے گئے ہیں۔ سانحہ کوہستان، سانحہ یادگار چوک گلگت اور سانحہ چیلاس میں ملوث مشکوک دہشت گرد بھی شیڈول فور سے آزاد ہیں، دیامر میں سرکاری سکولوں کو جلانے اور کارگاہ نالہ میں پولیس جوانوں کو شہید کرنے والے کمانڈرز بھی شیڈول فور میں شامل نہیں تھے۔
انسداد دہشت گردی کا قانون آئینی و قانونی طور پر کسی بھی صورت ایک متنازعہ خطے میں نافذ نہیں کیا جا سکتا، اس قانون کے اطلاق کا مقصد صرف اور صرف نو آبادیاتی نظام حکومت کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک کو کچل دینا ہے تاکہ حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو دہشت گردی سے جوڑ کردبایا جا سکے، اور گلگت بلتستان کے عوام کی بنیادی و انسانی حقوق کی آواز عالمگریت حاصل نہ کر سکے۔ کئی سال پہلے بھارت نے بھی جموں و کشمیر میں پوٹا نام سے شیڈول فور سے ملی جلی قانون کا نفاذ عمل میں لایا تھا جس کے بعد آزادی کشمیر کی تحریک کو دہشت گرد تحریک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیاگیااوراب حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں شیڈول فور کا قانون لا کرعوام کی سروں کو فتح کرنے میں کوشاں ہے۔ متنازعہ خطے میں جہاں استصواب رائے کا ہونا باقی ہو، عوام کے سروں پر حکومت قائم کرنے کی بجائے دلوں میں جگہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی گئی تو تنازعہ گلگت بلتستان کا سود مند تنائج سامنے آ سکتا ہے۔ سود مندنتائج ایسی صورت میں ممکن ہے جب متنازعہ خطے میں انسانیت کش اور عوام دشمن کالے قوانین کی اندھا دھند استعمال سے گریز کرتے ہو ئے عوام کو آزادی سے جینے کا حق دیا جائے۔
گلگت بلتستان کی عوام حکومتی اداروں باالخصوص شیڈول فور کی لسٹ بنانے والی ضلعی انٹیلجنس کمیٹی سے یہ سوال کر تی آ رہی ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ سید علی رضوی کس کالعدم مذہبی تنظیم کا سربراہ ہے جسے شیڈول فور میں رکھا گیا ہے؟ منظور پروانہ اور شبیر مایار کس دہشت گرد تنظیم کے کارکن ہیں اور شہزاد آغا کو ممبر اسمبلی ہونے کے باوجود شیڈول فور میں رکھ کر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ یاور عباس اور حسنین رمل کس دہشت گرد جماعت کا میڈیا ایکٹیوسٹ ہے؟ اگر یہ لوگ کسی دہشت گرد تنظیم سے وابسطہ ہے تو ان کی تفصیلات عوام کے سامنے لایا جائے۔ امن پسندوں کودہشت گرد ثابت کرنا ہمارے خیال میں عظیم تر قومی مفاد میں نہیں۔
( منظور پروانہ: چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
May be an image of 9 people, including Ghulam Agha, Yawar Abbas, Manzoor Parwana and Shabbir Mayar, beard and text that says 'NADIR HASSAN Agha'Ali Rizvi Manzoor wana Shaikh Karimi asnain Ramal Shehzad Agha Yawar Abbas Shabbir Mayar'
Akhtar Shahid Barq Balti, Shabbir Mayar and 156 others
30 Comments
12 Shares
Like
Comment
Share

Saturday, March 20, 2021

“Provisional Province” it is a vague term for Gilgit Baltistan

 “Provisional Province” it is a vague term for Gilgit Baltistan

The resolution passed by Gilgit Baltistan Assembly to make Gilgit Baltistan “Provisional Province (PP)” for the region hold no ground at all. This was stated by Chairman Gilgit-Baltistan United Movement Manzoor Parwana while reacting over the proposal of Islamabad to deal the affairs of Gilgit-Baltistan as Provisional Province.
He said the “Provisional Province” itself is a vague term and it is a joke with the rights denial people of Gilgit Baltistan. Gilgit Baltistan is a disputed territory that is the reason the region have remained deprived of self-determination for the last over 74 years. Pakistan had taken over the administrative control of the region temporarily under the dubious “Karachi Pact 28th April 1949” and was supposed to hand over the local administration to the area people “Self Autonomy” in accordance with the resolution of the United Nations Commission on India and Pakistan (UNCIP).
The GBUM chief said the assembly of any country formulates laws to run the affairs of the state and make new provinces within the country in accordance with the wishes of the people. However, Gilgit Baltistan is the only area which neither has representation in the National Assembly of Pakistan, Senate nor has its own assembly to formulate the laws. So the proposed de-facto Provisional Province will be cause of insecurity and scarcity for the people of Gilgit Baltistan.
Mr. Parwana said the struggle of the nationalist parties in the region not based on any frustration, prejudice, hatred but was based on a geographical and ideological foundation. Therefore, the government of Pakistan should take positive steps to grant Self-Autonomy to Gilgit Baltistan” in accordance with the UNCIP resolutions and principles of democracy.
Issued by
Manzoor Hussain Parwana
Chairman
Gilgit Baltistan United Movement
Skardu Baltistan
19-3-2021
Mubashir Hassan, Manzoor Hussain and 29 others
4 Comments
6 Shares
Like
Comment
Share

How Gilgit Baltistan will be a Provisional Province Of Pakistan

 گلگت بلتستان، عبوری ریاست سے عبوری صوبہ کیسے بنے گی؟

منظور پروانہ چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈموؤمنٹ
گلگت بلتستان کی کہانی بھی کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کی غلامی میں تقریبا 109 سال گزرنے کے بعدگلگت بلتستان کو یہاں کی عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی دلائی تھی اور ڈوگرہ راج کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر کے گلگت بلتستان کو مقبوضہ خطہ سے مفتوحہ خطے میں تبدیل کردیاتھا۔یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جب آزادی کے بعد کوئی ریاست وجود میں آتی ہے تو قومی حکومت تشکیل پاتی ہے اسی لئے ڈوگروں سے لی گئی آزادی کو قانونی شکل دینے کے لئے گلگت بلتستان کے قومی ہیروز نے اپنی خود مختار اور آزاد ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ راجہ گلگت شاہ رئیس خان کو نومولود عبوری جمہوریہ گلگت کا پہلا صدر منتخب کیا گیا اور کرنل حسن خان کو کمانڈ ان چیف بنایا گیا۔ عبوری ریاست کی تشکیل کے بعدگلگت بلتستان یکم نومبر 1947 ء کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے بعد وجود میں آنے والی تیسری خود مختار اور آزاد ریاست تھی۔
ہنزہ و نگرکے میروں کی خواہش کہے یا میجر براؤن کی سازش اس آزاد خطے کو پاکستان میں شامل کر نے کے لئے الحاق کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور 16 نومبر1947ء کو حکومت پاکستان نے اپنا نمائندہ ناءئب تحصیلدارسردار محمد عالم خان کو جانکاری کے لئے گلگت بھیجا۔سردار عالم خان نے گلگت پہنچتے ہی بھانپ لیا کہ یہاں کے عوام پر حکومت کرنا انتہائی آسان ہے، انھوں نے آتے ہی صدر مملکت کو فارغ کر دیا اور ملازمت پر لگا دیا اور خود پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے اس آزاد خطے کا سربراہ بن گیا۔ان تمام کاروائیوں کو کسی بھی طرح سے قانونی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی یہاں کے عوام کی توجہ اس طرف گئی کہ مستقبل قریب میں ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جانے ہونے والا ہے، عوام کو یہی باور کروایا گیا کہ حکومت پاکستان نے آپکی الحاق کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اس خطے کو جموریہ گلگت سے گلگت ایجنسی میں تبدیل کر دیا ہے اور اپنا نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کی نظم و نسق سنبھالنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ کرنل حسن خان کی طرف سے اس مبہم اقدام پر مزاحمت کرنے کی کوشش بھی ہوئی جسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر دبایا گیا۔یہ تمام اقدامات میجر براؤن کی خفیہ پلان کا حصہ تھا جس کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے بعد از مرگ میجر براوٗن کو گلگت بلتستان کی آزادی کا ہیرو بنا کر اعزازات سے نوازا۔
یہ دنیا کا دوسرا مسلمہ اصول ہے کہ اگر کوئی ملک اپنی وجود کو برقرار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تو کسی قریبی ملک میں شرائظ کے ساتھ ضم ہو جاتا ہے میجر براؤن کی گلگت بلتستان کوپاکستان کے ساتھ الحاق کروانے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ مفتوحہ خطے کو قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور پاکستان کی آئین میں شامل ہو۔16 نومبر 1947 کو آزاد جمہوریہ گلگت عارضی طور پر پاکستان کی انتظامی کنٹرول میں آچکی تھی۔گلگت بلتستان اب ایک مفتوحہ اور آزاد ریاست سے دوسری ریاست پاکستان میں ضم ہونے کی طرف جا رہا تھا اور یہاں کے عوام پاکستان کا آئینی اورپاکستان کی طرف سے الحاق کی قبولیت کا منتظر تھی کیونکہ عوام سمجھتی تھی کہ گلگت بلتستان کا مستقبل اب پاکستان کی انکار اور اقرار پر منحصر ہے، ہاں کی صورت میں گلگت بلتستان نے پاکستان ہونا تھا نہ کی صورت میں گلگت بلتستان کی عارضی ریاستی حکومت کو چلانے اور اپنی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا تھا کیونکہ یہاں کے عوام مہاراجہ ہری سنگھ کی راجدانی سے اپنے مادر وطن کو آزادی دلا چکی تھی اور واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول عارضی طور پر اپنے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے ہاتھوں میں لیا تھا تا ہم اس خطے کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی تھی۔ اسی اثناء میں مہاراجہ کے الحاق نامہ کو لے کر بھارت سلامتی کونسل میں چلا گیا، سلامتی کونسل نے پاکستان کو ہری سنگھ کی ریاست میں مداخلت کی بابت ثمن کیا تو حکومت پاکستان بھی اقوام متحدہ میں پیش ہو گئی اور ان دونوں ممالک UNCIP کی تشکیل پر رضامندہوئے اور UNCIP کی پہلی قراردا د 13 اگست 1948 پر عمل در آمد کی حامی بھر لی گئی۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان کی پاکستان سے الحاق کی خواہش کا سنہرا اور بلا مشروط باب تنازعہ کشمیر کا حل نکلنے تک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا کیونکہ گلگت بلتستان مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں و کشمیرکا صوبہ تھا اور گھنسارا سنگھ گلگت بلتستان میں مہاراجہ کا گورنر تھا۔ اب جموں و کشمیر متنازعہ بن گیاتھا۔ جب تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مہا راجہ کی الحاق کو قانونی حیثیت مل گئی تو ماتحت راجوؤں کی الحاق خود بخود کالعدم ہو گئی۔یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان، پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اور پاکستان کی کشمیر پالیسی آج بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا قانونی آئینی اور جغرافیائی حصہ تسلیم کرتی ہے اور گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے سے اجتناب کی گئی ہے۔
مہا راجہ کی الحاق ہندوستان سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان کے پاس دو آپشن تھے پہلا کہ سردار محمد عالم کو واپس بلا کر جمہوریہ گلگت کو تسلیم کرتے، دوسرا گلگت بلتستان کو بھی متنازعہ خطہ تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتے۔ لہذا دوسرے آپشن کومناسب سمجھ کر اپنایا گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان کے پالیسی سازوں نے گلگت بلتستان کو اس لئے متنازعہ بنایا تاکہ کشمیر پر حق رائے دہی کی صورت میں زیادہ ووٹ لے سکے، اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ غیر آئینی حیثیت کا ذمہ دار حکومت پاکستان ہے نہ کوئی اور۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فوری بعد حکومت پاکستان نے معاہدہ کراچی کو ڈیزائن کر کے گلگت بلتستان پر متنازعہ خطے کی حیثیت میں اپنا انتظامی گرفت کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی کوتر جیح دی۔ اس معاہدے کے سامنے آنے کے بعد گلگت بلتستان کی مفتوحہ حیثیت اب متنازعہ حیثیت میں تبدیل ہو گیا تھا۔گلگت بلتستان نہ یکم نومبر کی آزاد حیثیت میں رہی اور نہ ہی پاکستان سے الحاق کا خواب پورا ہوا بلکہ یکم نومبر 1947 سے پہلے کی حیثیت(ریاست جموں کشمیر کا ناردرن پروسینس)پر بحال گئی اور انتظامی طور پر حکومت پاکستان کی وزارت کشمیر کے ماتحت چلا گیا۔
گلگت بلتستان آج 73 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی پہچان سے خالی ہے، بھارت کے زیر انتظام لداخ بھارت میں باقاعدہ ایک یونین ٹیریٹری کی حیثیت رکھتی ہے، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وہاں کے عوام کو نمائندگی حاصل ہے،لیکن گلگت بلتستان دنیا کی کسی بھی ملک کا آئینی حصہ نہیں ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کی اپنی کوئی آئین ہے۔ گلگت بلتستان کی قسمت دیکھے کہ جوخطہ ایک مقبوضہ خطہ سے مفتوحہ خطہ بن چکا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے متنازعہ خطہ بن گیا۔ ہماری جیتی ہوئی بازی کوہم نے ہی ہرا دیا اور آج ہم شطرنج کے مہرے بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری حیثیت پر بات چیت کا تبادلہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ہوتا ہے، انڈیا گلگت بلتستان کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو پاکستان گلگت بلتستان کو متنازعہ کشمیرکا حصہ کہتی ہے۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام استصواب رائے چاہتی ہے تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ان شقوں پر عمل در آمد کیوں نہیں ہو رہا ہے جو استصواب رائے کو صاف و شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے ضروری ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد منظورکی ہے جس میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، قرار داد میں واضع طور پر لکھا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کو متاثر کئے بغیر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے، گویا گلگت بلتستان کی اسمبلی کے معزز اراکین نے بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر سے منسلک رکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان کی عوام نے اس قرارداد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عبوری صوبہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ عوام نے اس عبوری صوبہ قرارداد پر حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتیں پی پی پی،مسلم لیگ ن اور جمیت علما اسلام کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ گلگت بلتستان کی تمام قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں نے عبوری صوبے کی سخت مخالفت کر دی ہے، قراقرم نیشنل موؤمنٹ،جماعت اسلامی، تنظیم اہل سنت و جماعت، سول سوسائیٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں آزاد کشمیر طرز پر مقامی و انتظامی و خوداختیاری حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے 2 دسمبر 2020ء کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نیازی نے گلگت بلتستان اسمبلی سے اپنی خطاب میں گلگت بلتستان کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بابت ایک اور نئی کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا تھا، اس سے قبل جو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں جو اس نئی کمیٹی کے بنائے جانے کے بعد اپنی سفارشات کے ساتھ منظقی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ کمیٹی کے ذریعے گلگت بلتستان کی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی سوچ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان گلگت بلتستان کے بارے میں کس حد تک غیر سنجیدہ ہے۔ حالانکہ حکومت اس حقیقت سے آشنا ہے کہ گلگت بلتستان کی یکم نومبر 1947کی خود مختار اور خود اختیاراتی حکومت کی بحالی ناگزیر ہو چکی ہے جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے اور حکومت پابند بھی ہے۔ گلگت بلتستان میں آزاد و خود مختار ریاستی اسمبلی کے علاوہ کسی بھی قسم کی انتظامی سیٹ اپ،حکم نامہ یاکمیٹی کی سفارشات یا قرارداد گلگت بلتستان کی عوامی حقوق کا نعمل البدل نہیں ہو سکتی۔ عبوری صوبہ کا لالی پاپ تنازعہ کشمیر کی حیثیت کو بگاڑ کر رکھ دے گی ایسی صورت حال میں پاکستان کی منصوبہ سازوں کو چائیے کہ وہ گلگت بلتستان کی قومی تشخص اور تنازعہ کشمیر پر حکومتی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مدبرانہ قدم اٹھائے تاکہ بعد میں کف افسوس ملنانہ پڑے۔اگرعمران خان حکومت نے مودی سرکار کے ساتھ اندرونی گٹھ جوڑ کے ذریعے تنازعہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ ادھر ہم ادھر تم کا فیصلہ طے پایا ہے تو مستقبل قریب میں آزاد کشمیر،ہزارہ اور پنڈی ڈویژنز میں ضم ہونے جبکہ گلگت بلتستان خیبر پختون خواہ کا کوہستان ڈویژن بننے جا رہی ہے۔لہذا عبوری صوبہ نا می درد سر پالنے کی کیا ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔