Tuesday, February 26, 2019

Gilgit Baltistan: Provisional Province proposal rejected

گلگت بلتستان کی قومی تشخص اور عبوری صوبہ
National Identity of Gilgit Baltistan and Provisional Province Demand 
سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی لارجز بنچ نے 17 جنوری 2019ء کو گلگت بلتستان کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت پراپنے فیصلے میں ایک بار پھر حکومت پاکستا ن کی دیرینہ موقف کا اعاہ کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے اس لئے گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کرکے صوبہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل سامنے نہیں آتا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی پیرا نمبر 13 میں لکھتا ہے کہ "دو خطوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعلق رکھنا پاکستان کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔1948 میں UNCIP نے ان خطوں کی مقامی خود اختیاراتی حکومت کی وجود کو تسلیم کیا ہے ( جوکہ حکومت پاکستان سے الگ تھلگ ہیں)۔ ہم یقیناًیہاں گلگت بلتستان کے لئے فکر مند ہیں۔ اس خطے کو متنازعہ جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی بنا پر پاکستان میں شامل نہیں کر سکتے۔ جبکہ یہ خطہ ہمیشہ حکومت پاکستان کی مکمل انتظامی قابو میں ہے"۔
سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان کی دیرینہ اور اصولی موقف پر سمجھوتہ کئے بغیر اور گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کی چھتری میں جگہ دئیے بغیر گلگت بلتستان میں انتظامی اصطلاحات کے بارے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے لئے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں نیا حکم نامہ تیار کریں ۔ متنازعہ گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان کی انتظامی گرفت کو مزید سخت کرنے کے لئے کچھ عدالتی احکامات بھی جاری کی ہیں اور ان اختیارات کو گلگت بلتستان کی عوامی منتخب نمائندوں سے اٹھا کر صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کو منتقل کئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں لوکل اتھارٹی حکومت دینے کا حکم صادر کیا ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر طرز کی انتظامی سیٹ اپ دینے کا کہا گیا ہے۔ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز جو کہ متنازعہ خطے کی بنیادی پہچان ہے اس کی خلاف ورزی سے بھی حکومت کو نہیں روکا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے گلگت بلتستان کے عوام کی صفوں میں سیاسی گرما گرمی پیدا کی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت پانچواں آ ئینی صوبہ کے مطالبے سے دستبردار ہوچکی ہیں اور غالب اکثریت کے درمیان اتفاق رائے پایا جانے لگا ہے کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بن سکتا اور عوام اس مطالبے پر بھی متفق ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کے دیگر حصوں کو حاصل حقوق ملنی چائیے۔ تا ہم متنازعہ کشمیر کے دیگر حصوں کو حاصل حقوق کے بارے میں مقامی سیاست دانوں اور سٹیک ہولڈرز میں ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ایک طبقہ فکر گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر طرز کی سیٹ اپ دلانے کے خواہش مند ہیں جو کہ انڈیا نے جموں وکشمیر کو خصوصی ایکٹ کے تحت دیا ہوا ہے ۔ ان کے خیال میں گلگت بلتستان کے لئے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو دی گئی انتظامی سیٹ اپ بہتر ہیں۔ یہ طبقہ حکومت پاکستان سے سوال کر رہا ہے کہ انڈیا دے سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں دے سکتا؟اس سیٹ اپ کا نام انہوں نے عبوری صوبہ رکھ دیا ہے اور نیا مطالبہ سامنے لے آئے ہیں ، اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائیں۔ عبوری صوبہ بنانے کے بعد جموں و کشمیر کو حاصل مراعات اور سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے بارے میں یہ طبقہ تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ عبوری صوبہ بنانے کے بعد سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی بحالی پر حکومت پاکستان کو قائل کرنا ایک نا ممکن امر ہے ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی تعلق کو برقرار رکھنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے اس لئے آئینی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جموں و کشمیر طرز کی صوبائی سیٹ اپ دینے کے لئے پہلے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک دوسرے میں ضم کرنا ہوگا اس کے بعد دونوں اکائیوں کو ملا کر پاکستان کاعبوری صوبہ بنانا ہوگا۔
دوسرا مکتب فکر گلگت بلتستان کی قومی تشخص کو چھیڑے بغیر اندرونی خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے جوکہ UNCIP اور شملہ معاہدے میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو دینے کا پابندہے ، اندورنی خود مختاری کا رول ماڈل حکومت پاکستان اپنے زیر انتظام آزاد کشمیر سیٹ اپ کو سمجھتی ہے اس لئے یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ حکومت پاکستان اپنے زیر انتظا م ایک متنازعہ حصہ آزاد کشمیر کو پہلے ہی انتظامی سیٹ اپ دے چکی ہے ، جبکہ گلگت بلتستان کو اس طرح کی انتظامی سیٹ اپ سے محروم رکھا گیا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان روز اول سے ہی ایک انتظامی یونٹ کا حصہ ہے جسے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کہا جاتا ہے ، ایک ہی انتظامی یونٹ کے ماتحت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو دو مختلف سیٹ اپ دیے گئے ہیں ۔ آزاد کشمیر کو ریاستی سیٹ اپ دی گئی ہے اور گلگت بلتستان کو صوبائی ۔لہذا اس طبقہ فکر کا موقف ہے کہ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے ماتحت دونوں خطوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیا جانا چائیے ۔اس لئے یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ متنازعہ خطے کے دو اہم فریقین کو برابری کی سطح پر حقوق مل سکے اور حکومت پاکستان پر گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا بین الاقوامی الزام کو رد کیا جا سکے ۔اس مقصد کے لئے نہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ دو تہائی اکثریت کی ۔ ابتدائی طور پر آزاد کشمیر ایکٹ کو گلگت بلتستان میں نافذ کرنے اور بعد میں بہتری لانے کے لئے اصلاحات لانے کی ضرورت ہوگی۔
اولذکر طبقے کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائیں گے تو گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی اور گلگت بلتستان قومی دھارے میں شامل ہونگے۔ گلگت بلتستان کے تین چار افراد قومی اسمبلی کے ممبر بن جائیں گے۔ 
آخرالذکر طبقہ فکر کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کوآئینی صوبہ کے بجائے عبوری صوبہ کا درجہ دینے سے گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت توبرقرار رہے گی لیکن مسئلہ کشمیر سے بظاہر لا تعلق ہو جائے گا جس سے گلگت بلتستان موجودہ سپیشل سٹیٹس سے محروم ہوگی۔ بین الاقوامی طور پر اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پاکستان استصواب رائے سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور موجودہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر ماننے پر مائل ہے۔ گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رولزکا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گا اور بحالی کا مطالبہ بلا جواز ہوگا۔ حکمرانوں کو عبوری صوبہ کی آڑ میں گلگت بلتستان کی وسائل پر قبضہ کرنے ، ٹیکس لگانے اور سبسڈیز میں کمی لانے کا جواز مل جائیگا ۔ گلگت بلتستان میں عوامی زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے کر ہڑپ کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا ، گلگت بلتستان کی مقامی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے بڑے پیمانے پر غیر مقامیوں کو گلگت بلتستان میں بسایا جائے گااور بالخصوص سی پیک منصوبے کی وجہ سے غیر مقامی لوگ بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان منتقل ہونگے۔ اس سے گلگت بلتستان کی عوام کی ہر طرح سے استحصال ہوگی قومی اسمبلی میں نمائندگی کے نام پر تین چار افراد کو ملازمت ملے گی۔ عبوری صوبے کے ممبران قومی اسمبلی میں صرف تماشا بین ہونگے اگر انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا گیا توحکمران جماعت کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو نگے جس طرح موجودہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے تیس اراکین استعمال ہو رہے ہیں۔ 
پاکستان کی مستقل صوبوں کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی کے مشاہدے کے بعدیہ طبقہ فکر دلیل دیتی ہے کہ جہاں بلوچستان کے 40 ممبران ا قومی سمبلی بلوچستان کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں وہاں مبصر کے طور پر موجود گلگت بلتستان کے تین چار افراد گلگت بلتستان کے لئے کیا کر سکیں گے۔ یہ ممبران قومی اسمبلی میں نمائندگی کے باوجود گلگت بلتستان کے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے جس سے گلگت بلتستان کے عوام میں احساس محرومی مزیدبڑھ جائے گی اور کچھ سالوں بعد گلگت بلتستان کی عوام کو "عبوری صوبہ" کو ختم کرنے کی تحریک چلانی پڑے گی ، اس سے بہتر یہی ہوگا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا غیر آئینی عبوری صوبہ نہیں بنایا جائے تاکہ لوگوں کی غیر مشروط جذبہ الحاق اور حب الوطنی کے بھرم قائم رہ سکے ۔ یہ طبقہ فکر گلگت بلتستان کی تہذیب و تمدن ، رہن سہن ، ثقافتی اقدار اور عوامی مزاج اور پاکستان کی چھوٹے آئینی صوبوں کی موجودہ حالات ، احسا س محرومی ، پسماندگی اور انسانی حقوق کی ابتر صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کو کسی بھی صورت گلگت بلتستان کی عوام کی بہتری کے لئے ایک مناسب حل نہیں سمجھتا۔ ان کا خیال ہے کہ عبوری صوبے کی نوازشات و کرامات گلگت بلتستان کی عوام کو موجودہ مراعات اور پاکستانی عوام کی ہمدردی و خلوص سے یکسر محروم کرنے کا سبب بنے گا اور عوام کی امیدیں دم توڑ دے گی جس سے استصواب رائے پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہونگے۔
حکومت پاکستان بدلتے عالمی حالات کے پیش نظر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دینے پر کافی سالوں سے سنجیدگی سے غور کررہی ہے جوکہ ملک کی ایک طاقت ور سٹیک ہولڈرز کی عدم رضامندی کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا ہے ۔سال 2018 ء میں سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات میں آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو ترجیح حاصل تھی اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کے بقول انہوں نے یہ سیٹ اپ لینے سے انکار کیا تھا ۔وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو لینے سے انکار کرنے کی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی وزیر اعلیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے تا ہم اس میٹنگ میں موجود ایک بااثر بیورو کریٹ کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے صرف اور صرف اپنی دو سالہ اقتدار بچانے کے لئے قومی اقدار کو داؤ پر لگایا تھا ۔ اگر وہ اس سیٹ اپ کو قبول کرتے تو گلگت بلتستان کی موجودہ اسمبلی کو توڑا جانا تھا تاکہ گلگت بلتستان میں نئے نظام کے تحت دوبارہ انتخابات کرائے جا سکے۔ اس صورت میں وزیر اعلیٰ کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا اور مسلم لیگ نواز کی حکومت کا خاتمہ بھی لازمی تھا۔ اس لئے انہوں نے اس سیٹ اپ کو مستردکر دیا تاکہ اپنی کرسی اور پارٹی کی حکومت کو بچایا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نے اس سیٹ اپ کی آفر کو نہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں زیر بحث لایا ۔ نہ اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی گلگت بلتستان کے عوام کو کانوں کان خبر ہونے دی اورانتہائی پھرتی سے حاقان عباسی صاحب کو گلگت لائے اور2018 ء کا کالا قانون نافذ کر دیا اور عوام نے وزیر اعظم پاکستان کا جوتوں سے استقبال کر کے آرڈر 2018سے اپنی نفرت کا اظہار بھی کیا۔
آرڈر 2018ء پر عوامی مزاحمتی رد عمل کے نتیجے میں آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کا مطالبہ بھی شدت اختیار کر گیا تو وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے خود میڈیا کو بیان دیا کہ آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کی انہیں پیشکش ہوئی تھی جو انہوں نے مسترد کر دیا تھا، وزیر اعلیٰ نے کس طاقت کے حکم پر عوامی مطالبے اور حکومتی پیشکش کو مسترد کیا یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سر تاج عزیز کمیٹی میٹنگ سے آرڈر 2018ء لانے کے بجائے کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو قبول کرتا تو نہ آرڈر 2018ء کا اجراء ہوتا اور نہ ہے سپریم کورٹ کو جیوڈیشل آرڈر 2019ء جاری کروانے کی نوبت آتی۔ جو کام گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو کرنا تھا وہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فارق حیدر نے کر دکھایا ۔ آزاد کشمیر اسمبلی نے گلگت بلتستان کے بارے میں متفقہ طور پر آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دینے کی قرار داد منظور کروا کے ان لوگوں کا منہ بند کر دیا ہے جو ہر بات پر کہتے تھے کہ گلگت بلتستان کے حقوق میں کشمیری رکاوٹ ہیں۔ کشمیروں کو گلگت بلتستان کو حقوق دینے پر کوئی اعتراض نہیں رہا ۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام ایک ایجنڈے پر متفق ہو جائے تو ایک دن میں حکومت پاکستان سے اپنے جائز مطالبہ منو اسکتی ہے وہ سیٹ اپ جس کی حکومت پاکستان وزیر اعلیٰ کوپیشکش کر چکی ہے، آزاد کشمیر اسمبلی قرارداد پاس کر چکی ہے اوراقوم متحدہ کی قرار دادوں اور شملہ معاہدے میں تسلیم شدہ ہے۔
گلگت بلتستان کو اندونی خود مختاری (آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ )دے کر عمران خان بلا لہرا کر اور جنرل احسان محمود خان ڈنڈا ہوا میں گھما کرفخر سے کہہ سکیں گے کہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل پیرا ہے اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کی قربانیوں کے اعتراف میں اندرونی خود مختاری دے کر با اختیار بنا دیا گیا ۔ تا ہم گلگت بلتستان میںیو این سی آئی پی کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر ، گلگت بلتستان کے عوام کو حق حکمرانی اور حق ملکیت سے محروم رکھ کر ، گلگت بلتستان کے تجارتی راستوں کو بند رکھ کر ، گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور اور جیلوں میں قید رکھ کر ، گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کو روندکراورگلگت بلتستان میں انسانی حقوق کو پامال کر نے کے بعد گلگت بلتستان کو سر کا تاج کہے ، ماتھے کا جومرکہے، گردن کہے یا کمر کہے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر فی الحال گلگت بلتستان کی منفردقومی تشخص کو بحال رکھتے ہوئے اندرونی خود مختاری (آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ )ہی عوام کی مفاد اور پاکستان کی عظیم تر قومی مفاد میں ہے۔
تحریر: انجینئر منظور حسین پروانہ ، چئیرمین ، گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: