Saturday, January 26, 2019

Gilgit Baltistan leader Reject Supreme Court Order 2019 and demand for internal Autonomy


گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل داخلی خود مختاری ہے( منظور پروانہ)
عدالتوں سے فیصلے کسی کی خواہش پر نہیں بلکہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی لارجز بنچ کا فیصلہ تاریخی حقائق ، ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کے عین مطابق آئی ہے جبکہ جیوڈیشل ریفامز 2019 ء نو آبادیاتی نظام حکومت کا تسلسل ہے۔ اس سے قبل بھی 1999ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ دے چکی تھی کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور پاکستان میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔ گلگت بلتستان 17 جنوری 2019ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متنازعہ نہیں بنی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو غیرمتنازعہ بنا سکتی ہے ۔ اگر صوبہ یا آئینی حصہ بنانا ممکن ہوتا تو عمران خان ملک کا پانچواں صوبہ بنانے اور چوہدری ثاقب نثار ہیرو بننے کا یہ نادر موقع کبھی ضائع نہیں کرتے ۔ قوم پرست جماعتوں کا روز اول سے ہی یہی موقف رہی ہے کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کی بنیادی اور زیادہ اہمیت کے حامل اکائی ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل کی چابی ہے۔ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چئیرمین منظور پروانہ نے سپریم کورٹ کی حالیہ فیصلے پر رد عمل کر تے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے جہاں وفاقی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بے نقاب کیا ہے وہاں گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنماؤں اور کارکنوں کو سرخ رو کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کو متنازعہ کہنے پر قوم پرستوں کو غدار کہا جاتا تھا اور اب عوام جان چکی ہیں کہ غدار کون ہیں اوروفادار کون ہے۔ اس فیصلے نے گلگت بلتستان کے عوام کی آنکھیں کھول دی ہیں اور عوام کو اندرونی خود مختاری کے راستے پر گامزن کر دیا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ستر سالوں سے موجود ہے اور حکومت پاکستان دینے کا پابند بھی ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل داخلی خود مختاری ہے اور ا س داخلی خود مختاری کا رول ماڈل آزاد کشمیر کی ریاستی اسمبلی ہے ۔ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر سے زیادہ حساس اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل خطہ ہے لہذا گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر سے بھی زیادہ خود مختار اور آزاد ریاستی اسمبلی کی تشکیل اور عوامی خود اختیاراتی حکومت کا قیام انتہائی ضروری ہے ، بصورت دیگر عوام کی محرومی و محکومی عالمی طاقتوں کو گلگت بلتستان میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔
منظور پروانہ نے کہا کہ حکومت وقت ضائع نہ کریں ، گلگت بلتستان کے عوام کسی منظم تحریک کے لئے کمر بستہ ہونے سے قبل ہی گلگت بلتستان میں آزاد و خود مختار قانون ساز اسمبلی کی قیام کا اعلان کرے، تمام انتظامی امور گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کرتے ہوئے یہاں سے تمام غیر مقامی سول بیوروکریسی کو واپس بلا لیں۔ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کو روکے ۔ خارجہ ، کرنسی اور دفاع کے علاوہ تمام شعبوں کو مقامی خود اختیاراتی حکومت کے حوالے کر کے عوام کی سر وں کو فتح کرنے کے بجائے دل جیتنے کا سامان پیدا کریں تاکہ جموں و کشمیر پر استصواب رائے کی صورت میں گلگت بلتستان کو حاصل کیا جا سکے ۔
گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ

No comments: