Wednesday, July 29, 2015

UN should be convince International Donors to help Flood Affected Population in Gilgit Baltistan


imageاقوام متحدہ بین الاقوامی امدادی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر گلگت بلتستان میں فلڈ ریلیف کے لئے آمادہ کریں.منظور پروانہ

گلگت بلتستان کے عوام قدرتی آفات کے سامنے بے بس اور حکومتی ادارے بے حس ہو چکے ہیں ۔ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی ، غیت معیاری فن تعمیر اور عدم دلچسپی کے باعث معمولی قدرتی آفات اور بارشوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے ، گلگت بلتستان کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو چکی ہے ، خطے میں کھانے ہینے کی اشیاء کی دستیابی میں کمی آئی ہے ، بجلی غائب ہو چکی ہے، پیٹرول اور ڈیزل کا بحران پیدا ہو گیا ہے ، رابطہ پلوں کے منہدم ہونے کی وجہ سے درجنوں بالائی علاقوں کا نشیبی علاقوں سے آمد و رفت ختم ہو چکی ہیں ۔ لہذا بین الاقامی امدادی فلاحی ادارے گلگت بلتستان کے سیلاب زدہ عوام کی آبادکاری اور امداد کے لئے آگے آئیں اور براہ راست امدادی سرگرمیوں کے ذریعے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں ، ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنماء منظور پروانہ نے سیلاب زدہ گان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کیا ،
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی سول انتظامیہ کے آفیسران فوٹو سیشن میں مصروف ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے سربراہ میاں نواز شریف فضائی دورے کے نام پر تفریح میں لگا ہوا ہے ، اخباری بیانات اور فضائی نطاروں سے سیلاب زدہ گان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ، سیلاب زدہ گان امداد کے منتظر ہیں جبکہ انتظامیہ زبانی تقاریرکے ذریعے عوام کو طفل تسلیاں دے رہی ہیں ، محکمہ مال کے چھوٹے ملازمین جعلی متاثرین کی فہرستیں مرتب کر کے مال بنانے میں لگا ہوا ہے ، حکومت سیلاب زدہ گان کی جذبات سے کھیلنے کاسلسلہ فوری طور پر بند کرتے ہوئے تمام ضلعوں کے لئے ہنگامی فنڈز کا اجراء کریں اور ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کی آمد و رفت اور خوراک کے مسائل کو حل کرے۔
منظور پروانہ نے کہا کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے ، اس وجہ سے فریقین کی عدم دلچسپی کا شکار ہیں جو کہ عوامی مسائل اور سیلاب زدگان کی امدادی سرگرمیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے ، لہذا اقوام متحدہ بین الاقوامی امدادی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر گلگت بلتستان میں فلڈ ریلیف کے لئے آمادہ کریں اور عالمی فلاحی ادارے براہ راست گلگت بلتستان میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے متاثرین سیلاب کو راحت کا سامان پہنچائے ۔ گلگت بلتستان کے ہمسایہ ممالک سیلاب زدگان کی آباد کاری کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

Sunday, July 26, 2015

Gilgit Baltistan: Human rights violation concernd



Gilgit Baltistan:Sought International Attention

image

اقوام متحدہ ،ا نسانی حقوق کی عالمی  اور پاکستانی تنظیمیں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا نوٹس لے

اقوام متحدہ ،ا نسانی حقوق کی عالمی اور پاکستانی تنظیمیں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور گلگت بلتستان میں قید درجنوں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے ، اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں میں کوئی سیاسی قیدی پابند سلاسل نہیں تاہم گلگت بلتستان میں سیاسی قیدیوں سے جیل بھرے پڑے ہیں ، قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر قائم سیاسی مقدمات پرعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی باعث تشویش ہے ۔ ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چئیرمین منظور پروانہ نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ترقی پسند اور قوم پرست رہنماؤں بابا جان ، طاہرعلی طاہر،کرنل(ر) نادر حسن، صفدر علی ، افتخارکربلائی ، وسیم عباس ، افتخار حسین اور ان کے دیگر قیدی ساتھیوں کی طویل اسیری اور ان پر قائم بلا جواز مقدمات گلگت بلتستان کے قومی حقوق کی جدو جہد کرنے والوں کو ریاستی طاقت کے ذریعے دبائے رکھنے کا حربہ ہے ، ایسے پر تشدد اقدامات سے گلگت بلتستان کے قومی ہیروز اور محب وطن رہنماؤں کو مرعوب نہیں کیا جا سکتا۔ گلگت اور گاہکوچ جیل کی سلاخیں حریت پسندوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور نہ ہی غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بنا کرگلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ سے یہاں کے فرزندوں کو روکا جا سکتا ہے۔
منظور پروانہ نے کہا کہ جے آٹی ٹی کے نام پر گرفتار کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں پر جسمانی و ذہنی تشدد نے گونتاماؤبے کی یاد تازہ کر دی ہے اور تشدد کے ذریعے من پسند بیان دلوانے کی حکمت عملی انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتی ہیں ، حکومت گلگت بلتستان کے قومی رہنماؤں کی فوری رہائی کے احکامات جاری کرے بصورت دیگر گلگت بلتستان کے عوام سخت قسم کے احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے جس کی تمام تر ذمہ داری گلگت بلتستان انتظامیہ پر عائد ہوگی۔
یاد رہے کہ اس وقت نواز حکومت کی جانب سے مجلس وحدت مسلمین کے سابق امیدوار مطہر عباس ، سیکریٹری سیاسیات غلام عباس سمیت متعدد رہنماوں کو سیاسی قیدی بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے عوام میں نوز حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ پا یا جاتا ہے

Tuesday, July 14, 2015

Gilgit Baltistan: GBUM Chairman Denounces Provisional Constitutional Province

July 13, 2015

http://unpo.org/article/18369

Manzoor Parwana, Chairman of the Gilgit-Baltistan United Movement (GBUM), has recently spoken against the Pakistani Government’s will to make Gilgit Baltistan a Provisional Constitutional Province (PCP). According to the leader, this denomination is just a way to hide the fact that the Government has not handed over the local administration to the people living in the area. Gilgit Baltistan remains to this day the only Pakistani area not represented in the National Assembly nor at the Senate and with no assembly of its own to discuss and vote its laws.
Below is a press release published by the Gilgit Baltistan United Movement:

All of the Government of Pakistan's steps and proposals to make Gilgit Baltistan a “Provisional Constitutional Province (PCP)” and bring constitutional packages for the region are unlawful and hold no ground at all, as the region does not fall under Pakistan's constitution of 1973. This was stated by the Chairman of the Gilgit-Baltistan United Movement (GBUM), Manzoor Parwana, while reacting over the proposal of Islamabad to deal with the affairs of Gilgit-Baltistan as Provisional Constitutional Province.
He said the “Provisional Constitutional Province” itself is a vague term and it is a joke regarding the denial of the rights of the people of Gilgit Baltistan. Gilgit Baltistan is a disputed territory, that is the reason the region has remained deprived of self-determination for the last 68 years. Pakistan had taken over the administrative control of the region temporarily under the dubious “Karachi Pact 28th April 1949” and was supposed to hand over the local administration of the area to the people’s “Self Autonomy” in accordance with the resolution of the United Nations Commission on India and Pakistan (UNCIP).
The GBUM chief said the assembly of any country formulates laws to run the affairs of the State and make new provinces within the country in accordance with the wishes of the people. However, Gilgit Baltistan is the only area which neither has representation in the National Assembly of Pakistan and the Senate nor has its own assembly to formulate the laws. So the proposed de-facto Provisional Province will be a cause of insecurity and scarcity for the people of Gilgit Baltistan.
Mr. Parwana said the struggle of the nationalist parties in the region is not based on any frustration, prejudice or hatred but was based on a geographical and ideological foundation. The creation of Pakistan was not aimed at depriving other nations of their rights. Therefore, the Government of Pakistan should take positive steps to reinstate the “Sovereignty of Gilgit Baltistan” in accordance with the UNCIP resolutions and principles of democracy.

Sunday, July 12, 2015

Provisional Province is a joke with the people of Gilgit Baltistan: Manzoor Parwana


The government of Pakistan's all steps and proposals to make Gilgit Baltistan “Provisional Constitutional Province (PCP)” and bring constitutional packages for the region are unlawful and hold no ground at all, as the region does not fall under Pakistan's constitution of 1973.This was stated by Chairman Gilgit-Baltistan United Movement Manzoor Parwana while reacting over the proposal of Islamabad to deal the affairs of Gilgit-Baltistan as Provisional Constitutional Province.
He said the “Provisional Constitutional Province” itself is a vague term and it is a joke with the rights denial people of Gilgit Baltistan. Gilgit Baltistan is a disputed territory  that is the reason the region have remained deprived of self-determination for the last over 68 years. Pakistan had taken over the administrative control of the region temporarily under the dubious “Karachi Pact 28th April 1949” and was supposed to hand over the local administration to the area people “Self Autonomy ” in accordance with the resolution of the United Nations Commission on India and Pakistan (UNCIP).
The GBUM chief said the assembly of any country formulates laws to run the affairs of the state and make new provinces within the country in accordance with the wishes of the people. However, Gilgit Baltistan is the only area which neither has representation in the National Assembly of Pakistan, Senate nor has its own assembly to formulate the laws. So the proposed de-facto Provisional Province will be cause of insecurity and scarcity for the people of Gilgit Baltistan.

Mr. Parwana said the struggle of the nationalist parties in the region not based on any frustration, prejudice, hatred but was based on a geographical and ideological foundation. The creation of Pakistan was not aimed at depriving other nations of their rights. Therefore, the government of Pakistan should take positive steps to reinstate the “Sovereignty of Gilgit Baltistan” in accordance with the UNCIP resolutions and principles of democracy.

Issued by

Manzoor Hussain Parwana
Chairman
Gilgit Baltistan United Movement
Skardu Baltistan

Dated: 12/7/2015
www.skardu.blogspot.com

Thursday, July 9, 2015

GBUM WHITE PAPER ON GILGIT BALTISTAN ELECTION 2015

http://www.gbvotes.pk/urdu/archives/4217

لگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ نے قانون ساز اسمبلی انتخابات 2015ء کے بارے میں وائٹ پیپر جاری کردیا

منظور حسین پروانہ ، چئیرمین

manzoor parwana
گلگت بلتستان میں صوبائی طرز کی قانون ساز اسمبلی کی 24 سیٹوں کے لئے 8 جون 2015ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات دھاندلی کے مبینہ الزامات اور ریاستی مشینری کے استعمال کے ساتھ اپنی منطقی انجام کو پہنچی ہے۔ جہاں ان انتخابات کے دوران انتخابی عمل کو پر امن اور شفاف بنانے کی حکومتی دعوے کانوں کو تھکا دیتی ہیں وہاں قانون ساز اسمبلی حلقہ 10 میں سیکورٹی اہلکاروں اور ایک مذہبی جماعت کے حامیوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے ہلاک ہونے والے نوجوان اکبر شاہ ولد غلام اکبر ساکن سبسر روندو، ضلع سکردو کی ماں کی فریاد پر امن انتخابات کی راگ الاپنے والوں کے لب پر خاموشی کا مہر ثبت کر رہی ہے۔
8 جون کی رات سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جس بے دردی سے قانون ساز اسمبلی حلقہ 10 کے عوام پر تشدد ہوا اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ سکیورٹی ادارے کے ایک اہلکار سے تکرار اور دفعہ 144 کے نفاذ کی آڑ میں روندو میں سینکڑو ں افراد کو تشدد کا نشانہ بنا یا گیا۔ سکیورٹی اداروں کی کاروائی کے دوران ایک نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا جنہیں گلگت بلتستان میں انتخابات 2015ء کا اکلوتا شہید کہا جا رہا ہے ۔ اسٹیشن کمانڈر سکردو بریگیڈئیر احسان محمود نے ہلاک ہونے ولے نوجوان کی نماز جنازہ میں خصوصی شرکت کی اور اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے ایک حادثہ قرار دیا۔
انتخابی عمل کے دوران ووٹرز کو خوف زدہ اور دہشت زدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ پولنگ ایجنٹس کو غیر فعال اور معطل کر کے رکھنے میں فورسس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تاہم پولنگ بوتھ کے ساتھ مسلح فورسس کی تعیناتی نے بہت سارے ووٹ فول کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ خوف کھانے والے دیہاتیوں کی ایک خاص تعداد نے پولنگ اسٹیشنوں کی طرف رخ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی تا ہم تیزو چالاک ووٹروں نے اپنے کیا مردہ لوگوں کے ووٹ بھی کاسٹ کئے۔ مردہ ووٹرز نے چند نمائندوں کی جیت میں زندہ ووٹرز سے بھی نمایاں رہے۔ ووٹنگ کے دوران سب سے زیادہ خیانت ووٹ کا استعمال نہ جاننے والوں کے ساتھ ہوا ، ووٹ کا استعمال کرنے کی ذمہ داری پولنگ آفیسر کو دی گئی تھی تاہم پولنگ آفیسرز نے ٹھپہ ووٹرز کی مرضی کے خلاف اپنی پسندکے امیدوار کے انتخابی نشان پر لگا کر سادہ لوح ووٹرز کو چلتا کر دیا۔
گلگت بلتستان میں لیگل فریم ورک آرڈر 2009ء کے تحت ہونے والے انتخابات میں حسب سابق اسلام آباد کے حکمرانوں نے اپنی من پسند نتائج حاصل کرنے میں خاطر خوا ہ کامیابی حاصل کی ہیں۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھاری اکثریت سے سیٹیں حاصل کرکے گلگت بلتستان میں نو آبادیاتی نظام حکومت کو دوام بخشوانے میں اپنا لوہا منوایاہے۔ مذہبی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کوٹہ پر ایک آدھ سیٹیں ملی ہیں جو کہ ان جماعتوں کے وجود کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ۔
گلگت بلتستان کی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کی بھاری برتری کے کئی وجوہات سامنے آئے ہیں جن میں بنیادی وجہ پاکستان مسلم لیگ کی وفاق میں قائم حکومت ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان اسلام آباد کے برائے راست کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے انتظامی و مالیاتی معاملات میں وفاق کے زیر نگیں ہے اس لئے گلگت بلتستان میں وہی جماعت حکومت بناتی ہے جو اسلام آباد میں حکومت کر رہی ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی کامیابی کی دوسری اہم وجہ پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ پانچ سالوں کی بد عنوانی اور کرپشن بھی ہے۔ پی پی پی کی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن نے عوام کو مسلم لیگ ن کی طرف راغب کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں انتخابی دھاندلی ایک خاص تیکنیک کے ذریعے کی گئی ہے کہ دھاندلی کے پے در پے الزامات کے باوجود سیاسی و مذہبی جماعتیں ان انتخابی دھاندلیوں کو ثابت کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔ وفاقی وزیر امورکشمیرو گلگت بلتستان برجیس طاہر کی بطور گورنر گلگت بلتستان تعیناتی کے عمل سے ہی گلگت بلتستان میں انتخابی دھاندلی کی بو محسوس کی جارہی تھی تاہم مختلف سیاسی جماعتوں کی اصرار پر فوج کی تعیناتی کے بعد انتخابی دھاندلی کو تحفظ حاصل ہوا اور فوج کے زیر نگرانی انتخابات کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں آج چیخ رہی ہیں۔ انتخابی عمل کو بظاہر صاف شفاف بنانے کے لئے گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر مذہبی و مسلکی جماعتوں یہاں تک کہ کالعدم مذہبی جماعتوں کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تاکہ مذہبی ووٹوں کو بھی تقسیم کیا جا سکے۔
پاکستان پیپلز پاٹی کا الزام ہے کہ کالعدم مذہبی جماعت تحریک اسلامی پاکستان کو پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک توڑنے کے لئے حصہ دار بنایا گیا جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدار حفیظ الرحمان گلگت حلقہ سے کامیاب ہو گئے اور وہ وزیر اعلیٰ کے مسند پر فائز ہوئے۔ جہاں تحریک اسلامی پاکستان کو مستفید کرایا گیا وہاں مجلس وحدت مسلمین کو بھی سرکاری مشنری کے ذریعے انتخابی عمل میں معاونت فراہم کی جاتی رہی اور اس وقت بھی گریڈ 16 کاایک سرکاری ملازم مجلس وحدت مسلمین کے سکردو حلقہ روندو سے مرکزی عہدیدار ہیں اور الیکشن کی تمام تر کمپئن میں سرکارکی طرف سے انہیں ہر قسم کی معاونت حاصل رہی اور اب بھی ہے۔ جبکہ قانون کے مطابق کسی سرکاری ملازم کا کسی سیاسی عمل میں دخل ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ تاہم جب محکمہ تعلیم کے اعلیٰ ذمہ داران کی توجہ اس سیاست دان استاد کی جانب مبذول کرایا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم بے بس ہیں کیونکہ اس کو سرکاری آشیر باد حاصل ہے۔ اس طرح کے کئی اور دیگر سرکاری ملازمین کی ایم ڈبلیو ایم میں سیاسی عہدوں پر فائز ہونا اس بات کو تقویت دے رہی ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے پیچھے سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔
انتخابات میں بڑی تعداد میں جعلی پوسٹل بیلٹ استعمال کر کے مسلم لیگ ن کے ہارنے والے امیدواروں کو جیتایا گیا اس کی مثال سکردو حلقہ 1 ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کے امید وار ایک ووٹ سے جیتا تھا بعد میں دو پوسٹل بیلٹ ووٹ آگئے اور پاکستان مسلم لیگ کے امید وار کو برتری حاصل ہوگئی ، یوں پوسٹل بیلٹ سے جیت ہار میں بدل گیا اور ہار جیت میں۔ پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا ہے کہ ان کے امیدوار کو جعلی پوسٹل بیلٹ سے ہرایا گیا ہے۔
ضلع دیامر کے حلقہ داریل میں مبینہ دھاندلی کو روکنے کے لئے احتجاج کرنے والوں اوراسیکورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا جس میں دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔ تصادم کے بعد5 ووٹرز کو انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے اور کئی ملزموں کے گھر مسمار کر دئیے گئے ہیں۔ مشتعل افراد نے بیلٹ باکس کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے ابھی تک انتخابی نتائج روک کر رکھا ہوا ہے۔ چیلاس میں انتخابات کے دوران سکیورٹی اداروں کے ساتھ تصادم کے بعد درجنوں لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے کی اطلاعات بھی موجود ہیں ۔
راقم اور قراقرم نیشنل موومنٹ کے چیئرمین جاوید حسین نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تاہم ہماری بطور آزاد امید وار انتخابات میں شمولیت کو بھی سرکار کی طرف سے نا پسندیدہ قرار دیا گیا ۔ ہمارے خلاف ہر طرح کا پرو پیگنڈہ کیا گیا ۔ ہمیں انتخابی ریلی کی اجازت نہیں دی گئی اور ملک دشمن ، غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر سادہ لوح عوام کو ہماری حمایت سے باز رکھا گیا۔ ہمارے انتخابی جھنڈوں کو لوگوں کے گھروں سے یہ کہہ کر اتروایا گیا کہ یہ اقوام متحدہ کا جھنڈا ہے اور بعض دیہاتوں میں کہا گیا کہ یہ انڈیا کا جھنڈا ہے اسے مت لگاو ورنہ جیل جاو گے۔ ہمارے حامیوں کو ہمیں ووٹ دینے کی صورت میں کڑی سزائیں دینے اور ملازمتوں سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دی گئی۔
انتخابات میں اس بار مذہبی کارڈ کا استعمال بڑے پیمانے پر ہوا۔ مذہبی کارڈ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے استعمال کئے۔ تحریک اسلامی ، ایم ڈبلیو ایم اور جمعیت علماء اسلام نے مذہبی بنیاد پر ووٹ حاصل کئے۔ تحریک اسلامی اور ایم ڈبلیو ایم کو پڑنے والے تمام ووٹ مذہبی عقیدت کی بنیاد پر تھی۔ ووٹوں کی خرید و فروخت پر پابندی کے باوجود انتخابات میں جیتنے کے لئے امیداروں نے کروڑوں روپے خرچ کئے، انفرادی ووٹ خریدنے کے عمل کے ساتھ ساتھ ووٹرز کو اجتماعی طور پر بھی خریدا گیا لیکن الیکشن کمیشن نے صورت حال سے با خبر ہونے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا، جس کی وجہ سے با اثر لوگ جیت گئے اور سیاسی کارکنوں کو شکست ہوئی ۔
گلگت بلتستان کے انتخابات کا قوم پرست تنظیموں نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ الیکشن سے چند دن قبل حکومت نے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف گلگت میں اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر میں یاد داشت پیش کرنے کے لئے جانے والے قوم پرست قائدین کو گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کے مقدمات بنا کر انہیں جیل بھیج دئیے۔ ان سرکردہ قوم پرست رہنماوں میں بانی گلگت بلتستان کے فرزند کرنل(ر) نادر حسن ، بالاورستان نیشنل فرنٹ کے صدر صفدر علی ، معروف قوم پرست رہنماء افتخار حسین، وسیم عباس اور ان کے دیگر ساتھی شامل ہیں جو ان دنوں گلگت جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ قوم پرستوں کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کا مقدمہ در اصل حکومت کی انتخابی دھاندلیوں کو منظر عام پر آنے سے روکنا تھا لیکن فافین سمیت انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی قومی اور عالمی اداروں نے گلگت بلتستان کے انتخابات کو غیر شفاف، غیر آئینی اور جانبدارانہ قرار دئیے ہیں ۔

گلگت بلتستان میں انتخابات کا ڈرامہ نو آبادیاتی نظام کو تازہ آکسیجن فراہم کر کے چہروں کی تبدیلی کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کا حصہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو حق رائے دہی حاصل ہیں۔ حق رائے دہی کی اس جعلی عمل کو بھی انتخابی دھاندلی کے ذریعے مشکوک بنانے اور اپنی پسند کی کٹھ پتلی حکومت بنانے کے باوجود بھی گلگت بلتستان کا قومی سوال کا کوئی جواب دینے میں اسلام آباد کی سرکار ناکام نظر آرہی ہے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت ختم ہو گئی ؟ کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی مل گئی؟ کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ نہیں رہا؟ کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی و بنیادی حقوق مل گئی؟ کیا ان انتخابات سے گلگت بلتستان کو خود مختاری و آزادی نصیب ہوئی ؟ کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی صوبہ بن گیا؟کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کی قومی تشخص بحال ہو گئی اور کیا ان انتخابات کے بعد گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں ، کرپشن ، اقرباء پروری اور لوٹ کھسوٹ میں کوئی کمی آئے گی۔ یہ وہ چندسوالات ہیں جن کی بنیاد پر گلگت بلتستان سے قومی ہمدردی رکھنے والے اور یہاں کے عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والے ان انتخابات کو غلامی کی ساعتوں کو طول دینے کا حکومتی حربہ سمجھتے ہیں

Friday, July 3, 2015

Gilgit Baltistan: Anti Bonji Dam Drive in Baltistan

 Anti Bonji Dam Drive in Baltistan
Rondu Dam Action Committee organized a protest rally against the proposed 7,100 MW Bunji Hydroelectric Project being built in the Rondu Valley of Gilgit-Baltistan. 
Hundreds of people came out on the streets in Rondu to demand renaming of the proposed Bonji Dam. The protesters said that the dam is being constructed in Rondu but it is being called Bonji dam, which is unjust and likely to deprive the residents of Rondu, Baltistan.
 Chairman Dam Action Committee Muhammad Ibrahim spoke during the protest demonstration that around 47 kilometers area of Rondu Valley will be caused to submerge the dam. He threatened to oppose construction of the dam if demands of Ronduvians were not met.




Manzoor Parwana Chairman GBUM added that “the people of Rondu would not even allow govt to build a small lake in the area let alone a mega dam”. With the construction of the Bunji dam, the historic town of Shingus, Chhamachu,Yulbo and Subsar would be severely damaged including partial flooding of the area and the loss of traditional lands rich in minerals and precious stones. Local residents would also be deprived of grazing grounds .He said that around 30,000 people from Rondu will be displaced after construction of the dam.