لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان۔۔
اصل کہانی کیا ہے
انجینئر منظور پروانہ،
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران ایک بار پھر گلگت بلتستان کی عوام کی حق ملکیت پر شب خون مارنے کی تیاری کر رہے ہیں،گلگت بلتستان کی عوام کے حق ملکیت کو ختم کرنے کے لئے لینڈ ریفارم ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں لائی جا رہی ہے جس کے عوض میں موجودہ اسمبلی کو مدت میں توسیع کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں تاکہ کچھ رعصہ اور سرکاری نوکری چلتی رہے، لینڈ ریفارمز ایکٹ کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں اور اس سے گلگت بلتستان کی عوام کو کیا نقصان ہوگا۔ ان باتوں کو مختصرا نوجوان نسل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ اس ایکٹ کے مضمرات سے عوام کو قبل از آگاہی دے پر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔
حال ہی نے حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اپنی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی(آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات(غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں۔تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو ان چاروں مطالبات کو ترتیب دینا ہوگا۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو"،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھا مطالبہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں " سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔