http://www.islamtimes.org/ur/doc/interview/522156/
اسلام ٹائمز: اپنے ایک انٹرویو میں گلگت بلتستان کے معروف قوم پرست رہنماء کا کہنا تھا کہ چار ایٹمی طاقتوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے، سینٹرل ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کو محتاط فاصلے سے ملانے کے لئے گلگت بلتستان ایک بفر ریاست کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ گلگت بلتستان مستقبل کی ایک آزاد ریاست ہے۔ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے، گذشتہ 70 سالوں میں پاکستان چاہتے ہوئے بھی گلگت بلتستان کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکا ہے، اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس
خطے کی عالمی سطح پر کتنی اہمیت ہے۔
منظور پروانہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں، تاہم ان کی پہچان گلگت بلتستان کے قوم پرست سیاسی رہنماء کی حیثیت سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا آغاز اس وقت کیا جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ نویں جماعت میں بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی ممبر شپ اختیار کی۔ 1999ء میں BSF کے مرکزی صدر کی ذمہ داری سنبھالی۔ 2006ء میں گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 2009ء میں اور حالیہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبر کے لئے اسکردو حلقہ 4 سے الیکشن میں حصہ لیا۔ 2010ء میں گلگت بلتستان کی حکومت نے انہیں بغاوت کے مقدمہ میں جیل بھیج دیا۔ منظور پروانہ صحافی، تجزیہ نگار، مقرر اور شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، لیکن ان کی مقبولیت کی بنیادی وجہ انکا گلگت بلتستان کو ایک "آزاد ریاست" بنانے کا نظریہ ہے۔ وہ مشہور میگزین "کرگل انٹرنیشنل" کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے انتخابات کے بعد قوم پرست جماعتیں منظر سے غائب کیوں ہوگئی ہیں۔؟
منظور پروانہ: انتخابات کی قوم پرست جماعتوں کی نظر میں کوئی قانونی حیثیت نہیں اور نہ ہی انتخابات گلگت بلتستان کی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انتخابات گلگت بلتستان میں عوامی نمائندوں کی چناؤ کے لئے نہیں ہوتے بلکہ حکمران جماعت کی حکومت قائم کرنے اور گلگت بلتستان کے وسائل کی لوٹ مار کے لئے ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں کو نہ انتخابات میں آزادی سے حصہ لینے دیا جاتا ہے اور نہ ہی عوام کو ہمیں ووٹ دینے کی آزادی حاصل ہے۔ گلگت بلتستان میں قوم پرستوں کے حامیوں کو ہر قدم پر ہراساں کیا جاتا ہے، قوم پرست انتخابات کے بعد خاموش نہیں ہیں بلکہ ہماری یہ خاموشی ایک طوفان کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ جب قوم پرست بولتے تھے تو وہ غدار کہلاتے تھے، اب وفاقی حکومت اور وزیراعلٰی گلگت بلتستان بھی قوم پرستوں کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کا ہر باشعور فرد قوم پرستوں کا حامی نظر آرہا ہے۔ جب دنیا قوم پرستوں کے موقف سے متفق ہو رہی ہو، ان حالات میں قوم پرستوں کا خاموش رہنا ہی دانشمندی ہے۔
اسلام ٹائمز: قوم پرست جماعتوں کو پاکستان چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں۔؟
منظور پروانہ: پاکستان چین اقتصادی راہداری گلگت بلتستان سے گزرتی ہے، گلگت بلتستان کو نظر انداز کرکے اس اقتصادی راہداری کو اس خطے سے گزارا جا رہا ہے۔ اس اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان کے عوام کو ایک پیسے کا بھی فائدہ نہیں، گلگت بلتستان کے عوام کو دھواں اور گرد کے علاوہ اس منصوبے سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے قوم پرست گلگت بلتستان کے عوام کی مفاد کا سوچتے ہیں، یہ منصوبہ گلگت بلتستان کے عوام کی مفادات کی عکاسی نہیں کرتا، اس لئے قوم پرستوں کے تحفظات جائز ہیں۔ ہمارا موقف پاکستان چین اقتصادی راہداری پر واضح ہے کہ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کو تیسرے فریق کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے، متنازعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس خطے کی اپنی تاریخی و جغرافیائی اہمیت ہے۔ گلگت بلتستان نہ چین کا حصہ ہے اور نہ ہی پاکستان کا، اس لئے پاکستان اور چین کا اس خطے کو مائنس کرکے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو اقتصادی راہداری میں ایک فریق کے طور پر تسلیم کیا جائے، ساتھ ہی چیلاس، اسکردو اور گلگت میں اقتصادی زون بنایا جائے۔
اسلام ٹائمز: آئینی طور پر گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بننے میں کیا قباحت ہے، جسکی قوم پرست جماعتیں مخالفت کرتی نظر آرہی ہیں۔؟
منظور پروانہ: قوم پرستوں کا موقف روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا۔ قوم پرستوں کو گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بننے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں اور پاکستان بنانا چاہے تو قوم پرستوں سے پوچھ کر نہیں بنائے گا۔ حکومت پاکستان آئینی صوبے کے معاملے پر قوم پرستوں کے موقف کی حمایت کرتی ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کا اٹوٹ انگ ہے، اس لئے یہ پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا۔ اس کے باوجود وفاق پرست سیاسی و مذہبی جماعتیں صوبے کی رٹ لگاتی نظر آتی ہیں، جو کہ گلگت بلتستان کے عوامی حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ صوبہ عوامی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، اگر صوبہ بننے سے عوام خوشحال ہوتی تو بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، وہاں بڑی ترقی و خوشحالی ہوتی جبکہ وہاں کے عوام احساس محرومی کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی نہیں جبکہ اس خطے کی قومی و ملی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں کے وسائل کو یہاں کے عوام پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان ایک ریاست کے معیار پر پورا اترتا ہے، اس لئے اس خطے کو تنازعہ کشمیر کے حل تک اندورنی خود مختاری دینے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی لکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو اندرونی خود مختاری دی جائے۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا کسی بھی صورت یہاں کے عوام کی مفاد میں نہیں، گلگت بلتستان کے عوامی مفادات کے خلاف ہونے والی ہر سازش کی مخالفت ہونی چاہیے۔
اسلام ٹائمز: قوم پرست جماعتیں کس بنیاد پر گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ سمجھتی ہیں۔؟
منظور پروانہ: قوم پرست جماعتیں ہمیشہ تاریخی حقائق اور دلائل کے ساتھ بات کرتی ہیں، ہم گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں، نہ انڈیا کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی سری نگر کا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان موجودہ عالمی منظرنامے میں مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں و کشمیر کا متنازعہ حصہ ہے، چونکہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، اس لئے گلگت بلتستان بھی اس تنازعے کا حصہ ہے، جسے پاکستان، بھارت سمیت پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں، آزاد کشمیر ریاست کے زیرانتظام نہیں، سری نگر اور نئی دہلی کی راجدانی میں شامل نہیں۔ گلگت بلتستان کا کسی بھی ملک میں شامل نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ گلگت بلتستان علٰیحدہ قومی تشخص کی حامل ریاست ہے۔ اس کے علٰیحدہ قومی تشخص پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ گلگت بلتستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جس دن یہاں کے باسی گلگت بلتستان کے قومی سوال اور اس کا جواب سمجھ پائیں گے، اس دن ہر فرد قوم پرستوں کی صف میں ہونگے اور صوبے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مظفر آباد، سری نگر، گلگت اور لداخ ایک ہی مقدمے کے فریق ہیں۔ ان چاروں کو مسئلہ کشمیر نامی مقدمہ مل کر لڑنا ہے، جب اس مقدمے کا فیصلہ آئیگا تو ہم چاہیں تو اکٹھے رہ سکتے ہیں اور نہ چاہیں تو الگ الگ رہ سکتے ہیں، لیکن مقدمہ سب کو مل کر ہی لڑنا ہوگا۔ تنازعہ کشمیر کو حل ہونے کے بعد فریقین کو تقسیم کیا جاسکتا ہے، لیکن خطے کو تقسیم کرکے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں ایک طرف امریکہ سرمایہ کاری میں مصروف ہے اور دوسری طرف چائنہ، آپ کس ملک کو گلگت بلتستان کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔؟
منظور پروانہ: امریکہ اور چین دونوں حکومت پاکستان کی اجازت اور مرضی سے گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی منظوری کے بغیر کوئی امریکن یا چینی گلگت بلتستان نہیں آسکتا، ایسی صورت حال میں اگر ہم کسی ملک کو خطرہ سمجھے تو یہ اینٹی پاکستان کے زمرے میں آئے گا۔ بھلا میری کیا مجال ہے کہ میں امریکہ اور چین کو گلگت بلتستان کے کے لئے خطرہ سمجھوں، جو کہ حکومت پاکستان کے اتحادی اور معاشی پارٹنر ہیں، مجھے اپنی جان کی امان چاہیے۔
اسلام ٹائمز: آپ گلگت بلتستان کے مستقبل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
منظور پروانہ: گلگت بلتستان مستقبل کی ایک آزاد ریاست ہے۔ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے، گذشتہ 70 سالوں میں پاکستان چاہتے ہوئے بھی گلگت بلتستان کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکا ہے، اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس خطے کی عالمی سطح پر کتنی اہمیت ہے۔ یہ خطہ عالمی گریٹ گیم کا محور ہے، یہ ایک بفر اسٹیٹ بن سکتا ہے، کیونکہ چار ایٹمی طاقتوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے، سینٹرل ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کو محتاط فاصلے سے ملانے کے لئے گلگت بلتستان ایک بفر ریاست کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ عالمی طاقتیں گریٹ گیم کے کھلاڑی ہونگے۔ گلگت بلتستان کے عوام اچھا کھیلیں گے تو مستقبل تابناک ہوگا، تماشائی بنے رہیں گے تو انجام انتہائی دردناک ہوگا۔ ہمیں کم از کم 1947ء والی غلطی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ریاستوں کو چلانے کے لئے ایک طاقتور آرمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آئرلینڈ دنیا کا پرامن ملک ہے، جس کی کوئی آرمی نہیں اور نہ ہی اس ملک کو بیرونی جارحیت کا خطرہ ہے۔
No comments:
Post a Comment