گلگت بلتستان، عبوری ریاست سے عبوری صوبہ کیسے بنے گی؟
منظور پروانہ چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈموؤمنٹ
گلگت بلتستان کی کہانی بھی کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کی غلامی میں تقریبا 109 سال گزرنے کے بعدگلگت بلتستان کو یہاں کی عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی دلائی تھی اور ڈوگرہ راج کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر کے گلگت بلتستان کو مقبوضہ خطہ سے مفتوحہ خطے میں تبدیل کردیاتھا۔یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جب آزادی کے بعد کوئی ریاست وجود میں آتی ہے تو قومی حکومت تشکیل پاتی ہے اسی لئے ڈوگروں سے لی گئی آزادی کو قانونی شکل دینے کے لئے گلگت بلتستان کے قومی ہیروز نے اپنی خود مختار اور آزاد ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ راجہ گلگت شاہ رئیس خان کو نومولود عبوری جمہوریہ گلگت کا پہلا صدر منتخب کیا گیا اور کرنل حسن خان کو کمانڈ ان چیف بنایا گیا۔ عبوری ریاست کی تشکیل کے بعدگلگت بلتستان یکم نومبر 1947 ء کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے بعد وجود میں آنے والی تیسری خود مختار اور آزاد ریاست تھی۔
ہنزہ و نگرکے میروں کی خواہش کہے یا میجر براؤن کی سازش اس آزاد خطے کو پاکستان میں شامل کر نے کے لئے الحاق کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور 16 نومبر1947ء کو حکومت پاکستان نے اپنا نمائندہ ناءئب تحصیلدارسردار محمد عالم خان کو جانکاری کے لئے گلگت بھیجا۔سردار عالم خان نے گلگت پہنچتے ہی بھانپ لیا کہ یہاں کے عوام پر حکومت کرنا انتہائی آسان ہے، انھوں نے آتے ہی صدر مملکت کو فارغ کر دیا اور ملازمت پر لگا دیا اور خود پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے اس آزاد خطے کا سربراہ بن گیا۔ان تمام کاروائیوں کو کسی بھی طرح سے قانونی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی یہاں کے عوام کی توجہ اس طرف گئی کہ مستقبل قریب میں ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جانے ہونے والا ہے، عوام کو یہی باور کروایا گیا کہ حکومت پاکستان نے آپکی الحاق کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اس خطے کو جموریہ گلگت سے گلگت ایجنسی میں تبدیل کر دیا ہے اور اپنا نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کی نظم و نسق سنبھالنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ کرنل حسن خان کی طرف سے اس مبہم اقدام پر مزاحمت کرنے کی کوشش بھی ہوئی جسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر دبایا گیا۔یہ تمام اقدامات میجر براؤن کی خفیہ پلان کا حصہ تھا جس کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے بعد از مرگ میجر براوٗن کو گلگت بلتستان کی آزادی کا ہیرو بنا کر اعزازات سے نوازا۔
یہ دنیا کا دوسرا مسلمہ اصول ہے کہ اگر کوئی ملک اپنی وجود کو برقرار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تو کسی قریبی ملک میں شرائظ کے ساتھ ضم ہو جاتا ہے میجر براؤن کی گلگت بلتستان کوپاکستان کے ساتھ الحاق کروانے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ مفتوحہ خطے کو قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور پاکستان کی آئین میں شامل ہو۔16 نومبر 1947 کو آزاد جمہوریہ گلگت عارضی طور پر پاکستان کی انتظامی کنٹرول میں آچکی تھی۔گلگت بلتستان اب ایک مفتوحہ اور آزاد ریاست سے دوسری ریاست پاکستان میں ضم ہونے کی طرف جا رہا تھا اور یہاں کے عوام پاکستان کا آئینی اورپاکستان کی طرف سے الحاق کی قبولیت کا منتظر تھی کیونکہ عوام سمجھتی تھی کہ گلگت بلتستان کا مستقبل اب پاکستان کی انکار اور اقرار پر منحصر ہے، ہاں کی صورت میں گلگت بلتستان نے پاکستان ہونا تھا نہ کی صورت میں گلگت بلتستان کی عارضی ریاستی حکومت کو چلانے اور اپنی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا تھا کیونکہ یہاں کے عوام مہاراجہ ہری سنگھ کی راجدانی سے اپنے مادر وطن کو آزادی دلا چکی تھی اور واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول عارضی طور پر اپنے پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے ہاتھوں میں لیا تھا تا ہم اس خطے کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی تھی۔ اسی اثناء میں مہاراجہ کے الحاق نامہ کو لے کر بھارت سلامتی کونسل میں چلا گیا، سلامتی کونسل نے پاکستان کو ہری سنگھ کی ریاست میں مداخلت کی بابت ثمن کیا تو حکومت پاکستان بھی اقوام متحدہ میں پیش ہو گئی اور ان دونوں ممالک UNCIP کی تشکیل پر رضامندہوئے اور UNCIP کی پہلی قراردا د 13 اگست 1948 پر عمل در آمد کی حامی بھر لی گئی۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان کی پاکستان سے الحاق کی خواہش کا سنہرا اور بلا مشروط باب تنازعہ کشمیر کا حل نکلنے تک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا کیونکہ گلگت بلتستان مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں و کشمیرکا صوبہ تھا اور گھنسارا سنگھ گلگت بلتستان میں مہاراجہ کا گورنر تھا۔ اب جموں و کشمیر متنازعہ بن گیاتھا۔ جب تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مہا راجہ کی الحاق کو قانونی حیثیت مل گئی تو ماتحت راجوؤں کی الحاق خود بخود کالعدم ہو گئی۔یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان، پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اور پاکستان کی کشمیر پالیسی آج بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا قانونی آئینی اور جغرافیائی حصہ تسلیم کرتی ہے اور گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے سے اجتناب کی گئی ہے۔
مہا راجہ کی الحاق ہندوستان سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان کے پاس دو آپشن تھے پہلا کہ سردار محمد عالم کو واپس بلا کر جمہوریہ گلگت کو تسلیم کرتے، دوسرا گلگت بلتستان کو بھی متنازعہ خطہ تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتے۔ لہذا دوسرے آپشن کومناسب سمجھ کر اپنایا گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان کے پالیسی سازوں نے گلگت بلتستان کو اس لئے متنازعہ بنایا تاکہ کشمیر پر حق رائے دہی کی صورت میں زیادہ ووٹ لے سکے، اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ غیر آئینی حیثیت کا ذمہ دار حکومت پاکستان ہے نہ کوئی اور۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے فوری بعد حکومت پاکستان نے معاہدہ کراچی کو ڈیزائن کر کے گلگت بلتستان پر متنازعہ خطے کی حیثیت میں اپنا انتظامی گرفت کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی کوتر جیح دی۔ اس معاہدے کے سامنے آنے کے بعد گلگت بلتستان کی مفتوحہ حیثیت اب متنازعہ حیثیت میں تبدیل ہو گیا تھا۔گلگت بلتستان نہ یکم نومبر کی آزاد حیثیت میں رہی اور نہ ہی پاکستان سے الحاق کا خواب پورا ہوا بلکہ یکم نومبر 1947 سے پہلے کی حیثیت(ریاست جموں کشمیر کا ناردرن پروسینس)پر بحال گئی اور انتظامی طور پر حکومت پاکستان کی وزارت کشمیر کے ماتحت چلا گیا۔
گلگت بلتستان آج 73 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی پہچان سے خالی ہے، بھارت کے زیر انتظام لداخ بھارت میں باقاعدہ ایک یونین ٹیریٹری کی حیثیت رکھتی ہے، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وہاں کے عوام کو نمائندگی حاصل ہے،لیکن گلگت بلتستان دنیا کی کسی بھی ملک کا آئینی حصہ نہیں ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان کی اپنی کوئی آئین ہے۔ گلگت بلتستان کی قسمت دیکھے کہ جوخطہ ایک مقبوضہ خطہ سے مفتوحہ خطہ بن چکا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے متنازعہ خطہ بن گیا۔ ہماری جیتی ہوئی بازی کوہم نے ہی ہرا دیا اور آج ہم شطرنج کے مہرے بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری حیثیت پر بات چیت کا تبادلہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ہوتا ہے، انڈیا گلگت بلتستان کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو پاکستان گلگت بلتستان کو متنازعہ کشمیرکا حصہ کہتی ہے۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام استصواب رائے چاہتی ہے تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ان شقوں پر عمل در آمد کیوں نہیں ہو رہا ہے جو استصواب رائے کو صاف و شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے ضروری ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد منظورکی ہے جس میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، قرار داد میں واضع طور پر لکھا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کو متاثر کئے بغیر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے، گویا گلگت بلتستان کی اسمبلی کے معزز اراکین نے بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر سے منسلک رکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان کی عوام نے اس قرارداد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عبوری صوبہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ عوام نے اس عبوری صوبہ قرارداد پر حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتیں پی پی پی،مسلم لیگ ن اور جمیت علما اسلام کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ گلگت بلتستان کی تمام قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں نے عبوری صوبے کی سخت مخالفت کر دی ہے، قراقرم نیشنل موؤمنٹ،جماعت اسلامی، تنظیم اہل سنت و جماعت، سول سوسائیٹی اور عوامی ایکشن کمیٹی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں آزاد کشمیر طرز پر مقامی و انتظامی و خوداختیاری حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے 2 دسمبر 2020ء کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نیازی نے گلگت بلتستان اسمبلی سے اپنی خطاب میں گلگت بلتستان کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بابت ایک اور نئی کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا تھا، اس سے قبل جو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں جو اس نئی کمیٹی کے بنائے جانے کے بعد اپنی سفارشات کے ساتھ منظقی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ کمیٹی کے ذریعے گلگت بلتستان کی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی سوچ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان گلگت بلتستان کے بارے میں کس حد تک غیر سنجیدہ ہے۔ حالانکہ حکومت اس حقیقت سے آشنا ہے کہ گلگت بلتستان کی یکم نومبر 1947کی خود مختار اور خود اختیاراتی حکومت کی بحالی ناگزیر ہو چکی ہے جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے اور حکومت پابند بھی ہے۔ گلگت بلتستان میں آزاد و خود مختار ریاستی اسمبلی کے علاوہ کسی بھی قسم کی انتظامی سیٹ اپ،حکم نامہ یاکمیٹی کی سفارشات یا قرارداد گلگت بلتستان کی عوامی حقوق کا نعمل البدل نہیں ہو سکتی۔ عبوری صوبہ کا لالی پاپ تنازعہ کشمیر کی حیثیت کو بگاڑ کر رکھ دے گی ایسی صورت حال میں پاکستان کی منصوبہ سازوں کو چائیے کہ وہ گلگت بلتستان کی قومی تشخص اور تنازعہ کشمیر پر حکومتی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مدبرانہ قدم اٹھائے تاکہ بعد میں کف افسوس ملنانہ پڑے۔اگرعمران خان حکومت نے مودی سرکار کے ساتھ اندرونی گٹھ جوڑ کے ذریعے تنازعہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ ادھر ہم ادھر تم کا فیصلہ طے پایا ہے تو مستقبل قریب میں آزاد کشمیر،ہزارہ اور پنڈی ڈویژنز میں ضم ہونے جبکہ گلگت بلتستان خیبر پختون خواہ کا کوہستان ڈویژن بننے جا رہی ہے۔لہذا عبوری صوبہ نا می درد سر پالنے کی کیا ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔