محترم جناب عمران خان صاحب وزیر اعظم پاکستان
اسلام علیکم!
امید ہے کہ آپ متنازعہ گلگت بلتستان کا دورہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہونگے، اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد متنازعہ گلگت بلتستان کے عوام نے آپ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہے کیونکہ آپ نے متنازعہ گلگت بلتستان کے عوام کو حق خود ارادیت دینے اور اقوام متحدہ کی امن مشن کو خطے تک رسائی دینے کی حامی بھر لی ہے اس لئے4 اکتوبر کو بلتستان کی دار الحکومت سکردو میں آپکا شاندار استقبال ہوگا ۔ آپ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا بھی وزیر اعظم ہے لہذا آپ اس حقیقت سے با خبر ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بنیادی و انسانی حقوق سے یکسر محروم ہیں، آپ خوش قسمت ہیں کہ سکردوتک سیاسی جماعت کو پھیلا سکتے ہیں، جلسہ جلوس کر سکتے ہیں اور تقریر بھی کر سکتے ہیں، لیکن ستم ظریفی تو دیکھئے کہ گلگت بلتستان کی قومی و سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی سر زمین پر تنظیم سازی نہیں کر سکتے، جلسہ جلوس نہیں کر سکتے، عوام کی خدمت نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں کے قومی رہنماؤں کو شیڈول فور میں ڈال کر پابند رکھا گیا ہے۔ یہاں کے قومی رہنماؤں کی حالت بھی بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے کم نہیں ہیں۔جموں و کشمیر میں مودی سرکار نے سیاسی رہنماؤں کو قید میں رکھا ہوا ہے اور گلگت بلتستان میں بھی سیاسی رہنماء باباجان اور افتخار کربلائی اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی نے سٹیٹ سبجیکٹ کو ختم کیا ہے گلگت بلتستان میں بھی سٹیٹ سبیکٹ رولز کو ختم کیا ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہیں اور گلگت بلتستان میں بھی اظہار رائے پر قدغن لگا ہوا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سپیشل سٹیٹس ختم کیا گیا ہے لیکن گلگت بلتستان کو سپیشل سٹیٹس سے محروم رکھا گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب آپ تو خوش قسمت نکلے کہ آپ ہماری ووٹ ہماری رائے اور ہمارے خواہش کے بغیر ہمارا وزیر اعظم بن چکا ہے اور ہم اتنے مجبور و محکوم ہیں کہ ہم آپ کو وزیر اعظم بنانے کے لئے ووٹ تک نہیں دے سکتے، آپ ہمارے لئے قانون بناتے ہیں، آپ ہمارے لئے حکم نامہ جاری کرتے ہیں اور آپ ہماری مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ہم اتنے بے بس و لاچار ہیں کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی پر آہ بھی کرے تو غداری کے مقدمات میں گرفتار کئے جاتے ہیں، ہمیں تھانوں، عدالتوں اور قید خانوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر ٹارچر کئے جاتے ہیں۔ہم پر سفری پابندیاں لگائی جاتی ہیں، ہمارے شناختی کارڈ بلاک اور اکاؤنٹ منجمد کئے جاتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب72 سال بڑا عرصہ ہوتا ہے، ہماری تین نسلیں گزر چکی ہیں، ہمیں نہ پاکستان میں شامل کیا گیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق حکمرانی دی گئی، ہم سے جانوں کی قربانی تو لی گئی لیکن ہماری قربانیوں کا صلہ محرومی محکومی اور جبر و ستم کی شکل میں لوٹایا جاتا رہاہے۔ ہمارے جوان پاکستان کے بارڈرز پر اس لئے لڑتے رہے کہ شاید ہماری قربانی ہمیں پاکستانی بنانے میں مدددے گی لیکن 72 سال گزرنے کے بعد بھی ہم تنازعہ کشمیر کی سولی پر لٹکتے رہے، اور اب نو جوان نسل جان چکی ہے کہ گلگت بلتستان ہی تنازعہ کشمیر کی سانسیں ہیں اور گلگت بلتستان ہی تنازعہ کشمیر کی روح ہے، گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا چوتھا فریق ہے، تنازعہ کشمیر میں گلگت بلتستان ہی عالمی توجہ کا مرکز و محور ہے، اگر تنازعہ کشمیر پر امن ہونا ہے تو گلگت بلتستان پر ہونا ہے اور اگر تنازعہ کشمیر پر جنگ ہونی ہے تو بھی گلگت بلتستان کے حصول کے لئے ہونی ہے۔اگر تنازعہ کشمیر حل ہونا ہے تو گلگت بلتستان کی وجہ سے ہی حل ہونا ہے۔ اگر کشمیر خود مختار ہونا ہے تو بنیاد گلگت بلتستان ہے اور اگر تنازعہ کشمیر حل نہیں ہونا ہے تواس کی وجہ بھی گلگت بلتستان ہی ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب گلگت بلتستان کے عوا م مسئلہ کشمیر اپنی منظقی انجام تک پہنچنے تک اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام حق حکمرانی چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی سر زمیں پر اپنی رائے و خواہش کا نظام و انتظام چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی خطے پر اپنی حق رائے دہی سے قانون سازی چاہتی ہے، گلگت بلتستان کی عوام اپنی زمین پر اپنی حق ملکیت چاہتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنی تاریخی و ثقافتی تشخص چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام ہمسایہ ممالک سے آزادانہ نقل و حمل اور تجارت چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام معاشی و اقتصادی طورپر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔گلگت بلتستان کے عوام دنیا میں سر اٹھا کر چلنا چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام وہ تمام انسانی و بنیادی حقو ق چاہتی ہے جو انہیں اسلام نے دی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کی چارٹرمیں تسلیم شدہ ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب مجھے امید ہے کہ آپ اپنے دورے کے اس اہم اور تاریخی موقع پر اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948 ء کی قرار داد کی روشنی میں گلگت بلتستان میں خود مختار اور با اختیار " لوکل اتھارٹی حکومت " کے قیام کا اعلان فرمائیں گے اور گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کو روکنے کا اعلان کر کے مودی سرکار کی منہ پر زور دار طمانچہ ماریں گے اور اقوم عالم کو مثبت پیغام دیں گے کہ عمران خان صرف تقریر نہیں کرتا تقریر کو عملی جامہ بھی پہناتا ہے۔
آپ کا خیر اندیش
انجینئر منظور پروانہ
چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موء منٹ
بمقام شیڈول فور،سکردو بلتستان
مورخہ 3 اکتوبر 2019..................
اسلام علیکم!
امید ہے کہ آپ متنازعہ گلگت بلتستان کا دورہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہونگے، اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد متنازعہ گلگت بلتستان کے عوام نے آپ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہے کیونکہ آپ نے متنازعہ گلگت بلتستان کے عوام کو حق خود ارادیت دینے اور اقوام متحدہ کی امن مشن کو خطے تک رسائی دینے کی حامی بھر لی ہے اس لئے4 اکتوبر کو بلتستان کی دار الحکومت سکردو میں آپکا شاندار استقبال ہوگا ۔ آپ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا بھی وزیر اعظم ہے لہذا آپ اس حقیقت سے با خبر ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بنیادی و انسانی حقوق سے یکسر محروم ہیں، آپ خوش قسمت ہیں کہ سکردوتک سیاسی جماعت کو پھیلا سکتے ہیں، جلسہ جلوس کر سکتے ہیں اور تقریر بھی کر سکتے ہیں، لیکن ستم ظریفی تو دیکھئے کہ گلگت بلتستان کی قومی و سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی سر زمین پر تنظیم سازی نہیں کر سکتے، جلسہ جلوس نہیں کر سکتے، عوام کی خدمت نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں کے قومی رہنماؤں کو شیڈول فور میں ڈال کر پابند رکھا گیا ہے۔ یہاں کے قومی رہنماؤں کی حالت بھی بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے کم نہیں ہیں۔جموں و کشمیر میں مودی سرکار نے سیاسی رہنماؤں کو قید میں رکھا ہوا ہے اور گلگت بلتستان میں بھی سیاسی رہنماء باباجان اور افتخار کربلائی اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی نے سٹیٹ سبجیکٹ کو ختم کیا ہے گلگت بلتستان میں بھی سٹیٹ سبیکٹ رولز کو ختم کیا ہوا ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہیں اور گلگت بلتستان میں بھی اظہار رائے پر قدغن لگا ہوا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سپیشل سٹیٹس ختم کیا گیا ہے لیکن گلگت بلتستان کو سپیشل سٹیٹس سے محروم رکھا گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب آپ تو خوش قسمت نکلے کہ آپ ہماری ووٹ ہماری رائے اور ہمارے خواہش کے بغیر ہمارا وزیر اعظم بن چکا ہے اور ہم اتنے مجبور و محکوم ہیں کہ ہم آپ کو وزیر اعظم بنانے کے لئے ووٹ تک نہیں دے سکتے، آپ ہمارے لئے قانون بناتے ہیں، آپ ہمارے لئے حکم نامہ جاری کرتے ہیں اور آپ ہماری مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ہم اتنے بے بس و لاچار ہیں کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی پر آہ بھی کرے تو غداری کے مقدمات میں گرفتار کئے جاتے ہیں، ہمیں تھانوں، عدالتوں اور قید خانوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر ٹارچر کئے جاتے ہیں۔ہم پر سفری پابندیاں لگائی جاتی ہیں، ہمارے شناختی کارڈ بلاک اور اکاؤنٹ منجمد کئے جاتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب72 سال بڑا عرصہ ہوتا ہے، ہماری تین نسلیں گزر چکی ہیں، ہمیں نہ پاکستان میں شامل کیا گیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق حکمرانی دی گئی، ہم سے جانوں کی قربانی تو لی گئی لیکن ہماری قربانیوں کا صلہ محرومی محکومی اور جبر و ستم کی شکل میں لوٹایا جاتا رہاہے۔ ہمارے جوان پاکستان کے بارڈرز پر اس لئے لڑتے رہے کہ شاید ہماری قربانی ہمیں پاکستانی بنانے میں مدددے گی لیکن 72 سال گزرنے کے بعد بھی ہم تنازعہ کشمیر کی سولی پر لٹکتے رہے، اور اب نو جوان نسل جان چکی ہے کہ گلگت بلتستان ہی تنازعہ کشمیر کی سانسیں ہیں اور گلگت بلتستان ہی تنازعہ کشمیر کی روح ہے، گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا چوتھا فریق ہے، تنازعہ کشمیر میں گلگت بلتستان ہی عالمی توجہ کا مرکز و محور ہے، اگر تنازعہ کشمیر پر امن ہونا ہے تو گلگت بلتستان پر ہونا ہے اور اگر تنازعہ کشمیر پر جنگ ہونی ہے تو بھی گلگت بلتستان کے حصول کے لئے ہونی ہے۔اگر تنازعہ کشمیر حل ہونا ہے تو گلگت بلتستان کی وجہ سے ہی حل ہونا ہے۔ اگر کشمیر خود مختار ہونا ہے تو بنیاد گلگت بلتستان ہے اور اگر تنازعہ کشمیر حل نہیں ہونا ہے تواس کی وجہ بھی گلگت بلتستان ہی ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب گلگت بلتستان کے عوا م مسئلہ کشمیر اپنی منظقی انجام تک پہنچنے تک اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام حق حکمرانی چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی سر زمیں پر اپنی رائے و خواہش کا نظام و انتظام چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام اپنی خطے پر اپنی حق رائے دہی سے قانون سازی چاہتی ہے، گلگت بلتستان کی عوام اپنی زمین پر اپنی حق ملکیت چاہتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنی تاریخی و ثقافتی تشخص چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام ہمسایہ ممالک سے آزادانہ نقل و حمل اور تجارت چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام معاشی و اقتصادی طورپر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔گلگت بلتستان کے عوام دنیا میں سر اٹھا کر چلنا چاہتی ہے، گلگت بلتستان کے عوام وہ تمام انسانی و بنیادی حقو ق چاہتی ہے جو انہیں اسلام نے دی ہوئی ہیں اور اقوام متحدہ کی چارٹرمیں تسلیم شدہ ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب مجھے امید ہے کہ آپ اپنے دورے کے اس اہم اور تاریخی موقع پر اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948 ء کی قرار داد کی روشنی میں گلگت بلتستان میں خود مختار اور با اختیار " لوکل اتھارٹی حکومت " کے قیام کا اعلان فرمائیں گے اور گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کو روکنے کا اعلان کر کے مودی سرکار کی منہ پر زور دار طمانچہ ماریں گے اور اقوم عالم کو مثبت پیغام دیں گے کہ عمران خان صرف تقریر نہیں کرتا تقریر کو عملی جامہ بھی پہناتا ہے۔
آپ کا خیر اندیش
انجینئر منظور پروانہ
چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موء منٹ
بمقام شیڈول فور،سکردو بلتستان
مورخہ 3 اکتوبر 2019..................