لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان
انجینئر منظور پروانہ ، چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ
سوشل میڈیا کے استعمال کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے نو جوانوں میں اپنے بنیادی حقوق سے آگاہی اور اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے کا عزم انتہائی حوصلہ افزا اور قابل ستائش ہے ۔ لیکن نوجوان نسل کو چائیے کہ وہ پہلے ان مطالبات کو سمجھنے کی کوشش کرے جو یہاں کے عوام گزشتہ ستر سالوں سے کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان ان مطالبات کو نہیں مان رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت کے گزرنے کے بعد پتہ چلے کہ جن مطالبات کو منوانے کے لئے احتجاج کئے، دھرنے دیے، اور لانگ مارچ کئے وہ مطالبات سرے سے ہی غلط تھے ۔ اس طرح کے ٹائم پاس اور سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کئے جانے والے مطالبات کی مختصر تاریخ نوجوانوں کی یاد دہانی کے لئے ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آج کا قومی شعور رکھنے والا نوجوان ماضی کی غلطیوں سے سیکھے اور غلط قسم کے مطالبات کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔
گلگت بلتستان کے عوام کی سر فہرست مطالبہ" آئینی حقوق دو "ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کا پاکستان سے غیر مشروط الحاق ہو چکا ہے ، اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ مہا راجہ ہری سنگھ کی راجدانی سے آزاد ہونے کے بعد گلگت بلتستان مختصر مدت میں میجر براؤن کی کاؤشوں سے پاکستان کے زیر انتظام آیا تھا جسے گلگت بلتستان کی طرف سے الحاق کی یک طرفہ کوشش سمجھا جاتا ہے۔دراصل حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی ریاست جموں و کشمیر سے تعلق اور تقسیم ہندوستان فارمولے کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کی رائے کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور معاہدہ کراچی کر کے گلگت بلتستان پر انتظامی کنٹرول حاصل کر لیا تھا کیونکہ حکومت پاکستان اس حقیقت سے واقف تھی کہ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان میں الحاق کی بنیاد پر ضم کر دیا گیا تو ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ کی انڈیا کے ساتھ الحاق کو بھی تحفظ حاصل ہوگا جس کی وجہ سے مہا راجہ کے ماتحت راجوں ( گلگت بلتستان کے )کی الحاق خود بخودکالعدم ہوئے گی اور گلگت بلتستان سمیت پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کے پاس چلا ئے گا ۔لہذا پوری ریا ست جموں و کشمیر کوحاصل کرنے کی حکمت عملی کے تحت گلگت بلتستان کے عوا م کی پاکستان سے الحاق کی خواہش کو سرے سے ہی رد کر دیا گیااور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل ایک انتظامی یونٹ بنائی گئی جو کہ آج بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے نام سے موجود ہے۔
پاکستان میں چار دفعہ آئین سازی ہوئی لیکن چاروں دفعہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کو ایک بے معنی مطالبے کے پیچھے لگا دیا گیا کہ گلگت بلتستان کو" آئینی حقوق دو"پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبران اور دانشوروں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جاتا ہے تو وہ زیر لب مسکرا کر کہتے ہیں کہ" کتنی سادہ قوم ہے آئین میں شامل ہی نہیں اور آئین میں حق مانگتے ہیں" پتہ نہیںآئین کے کس شق کے مطابق حقوق مانگتے ہیں؟ عوام ہر آنے والی حکومت سے یہ بے مقصد مطالبہ کربیٹھتی ہے اور حکمران کمیٹیاں بنا کر یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق اس دن ملے گی جب مسئلہ کشمیر حل ہوگا اور خطہ پاکستان کی آئین میں شامل ہوگا ۔ فی الحال اس خطے کو پاکستان اپنی آئین میں شامل نہیں کر سکتی ۔ اس مسلمل انکار کے باوجود گلگت بلتستان والے اس بے مقصد اور بے معنیٰ مطالبے کو دہرائے رکھنے پر بضد ہیں ۔آئینی حقوق دو کا نعرہ ہی گلگت بلتستان کے عوام کو ان کی بنیادی حقوق ( متنازعہ خطے کے حقوق )سے محروم رکھنے کا سبب اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کی وجہ بن رہی ہے ۔
دوسرا مطالبہ گلگت بلتستان" پانچوں صوبہ" والا ٹرک کی لال بتی ہے جس کے پیچھے لگا کر قوم کا ستر سال ضائع کیا گیا ،اس مطالبے کو مسلکی کفن پہنا کر ایک مقدس مطالبہ بنایا گیا اور عوام سے ووٹ لیا جاتا رہا اور اب بھی ایمان و عقیدے کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کسی بھی علاقے کو کسی بھی ملک کا صوبہ بننے کے لئے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ، پہلا کہ وہ علاقہ آزاد اور خود مختار ہو، دوسراکہ وہ خطہ اس ملک کا آئینی اور جغرافیائی حصہ ہو جس کا صوبہ بننا ہے، تیسرا اس خطے کی آبادی ا ور وسائل صوبائی سیٹ اپ کو چلانے کی استطاعت رکھتا ہو، چوتھا کہ یہ ڈیمانڈ عوامی اکثریتی رائے کے مطابق ہو۔ یہاں گلگت بلتستان کسی بھی ایک شرط پر پورا نہیں اترتی کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے ، اور یہاں کی 40 فیصد آبادی صوبے کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان گلگت بلتستان کو اپنی آئین میں شامل کرنے سے بھی قاصر ہے ایسی صورت حال میں ڈائریکٹ صوبہ بنانے کا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، ۔ایسے نا ممکن مطالبات کر کے مخصوص سیاسی جماعتوں کے سربراہان یہ ثابت کرنا چا ہتے ہیں کہ عوام یاتو انتہائی بے وقوف اور جاہل ہیں یا یہ سیاسی جما عتیں اس مطالبے کی آڑ میں حکومت پاکستان کو بلیک میل کر کے ذاتی مفادات حاصل کر رہی ہیں۔
تیسرا مطالبہ" ٹیکس لو، حق دو "کا مطا لبہ ہے ، بین الاقوامی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں ٹیکس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا تو ٹیکس لو حق دو کا نعرہ چی معنیَٰ ۔ گلگت بلتستان کی عوام پر ٹیکس لگانا ہی نہیں چائیے کیا اگر گلگت بلتستان کے دو افراد کو پاکستان کے قومی اسمبلی میں عارضی نمائندگی دینے کے بعد عوام ٹیکس دینے کے لئے رضامند ہو ئے گی ۔ ٹیکس کا تعلق کاروبار، لین دین، تجارت اور آمد ن سے ہے ، گلگت بلتستان کے عوام ہر قسم کی ٹیکس دے رہی ہے ، ڈاک خانہ کی ٹکٹ سے لے کر موبائل چارج تک ، صابن سے لے کو دوائی تک ، تنخواہوں سے لے کر اے ٹی ایم مشین کی استعمال تک ، تمام تر ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ ٹیکس کو گلگت بلتستان والے ستر سالوں سے ہی دے رہی ہے۔ کیا عوام کو بڑی حد تک موبلائز کر کے احتجاج کرنے کے بعد یہ تمام ٹیکس ختم ہوئے ۔ ٹیکس تحریک کے مسئلہ پر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور عوام ایک بار پھر ٹیکس کے نرغے ہیں ہیں اس بار یہی بتایا جاتا ہے کہ ٹیکس عوامی ایکشن کمیٹی کی رضامندی اور ڈمبوداس معاہدے کی روشنی میں عوامی خواہشات کے مطابق لگ رہی ہے۔" نماز بخشوانے گیاروزہ بھی فرض ہوا " کے مصداق اب گلگت بلتستان پر ٹیکس گلگت بلتستان کونسل نہیں بلکہ فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے قوانین کے تحت دوبارہ لگی ہے ۔
چوتھا مطالبہ خالصہ سرکار کے بارے میں سامنے آ رہا ہے، اس مطالبے کی آڑ میں عوا م کو پہلے" خالصہ سرکار" کے خلاف ورغلایا جا رہا ہے کہ یہ نظام ڈوگروں کا ہے اور اب چونکہ ڈوگروں سے آزادی لی گئی ہے لہذا اس قانون کو بھی ختم ہونا چائیے ۔ یہ مطالبہ خطے کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے کہ خالصہ سرکار نظام کو ختم کیا جائے، اگر محکمہ مال کی ریکارڈ سے "خالصہ سرکار" کا لفظ ہذف کر کے اس کی جگہ" پاک سرکار" یا "گلگت بلتستان سرکار" لکھ دی گئی تو اس کے نتائج کیا ہونگے عوام کو خود سمجھ لینا ہوگا ۔
گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے ، اس لئے یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی ، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے ، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں ، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی( آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات( غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے ، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی ،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی ۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے ۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی ۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کی اصلاحات کا علم ہے تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے ، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3 ۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے ، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6 ۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7 ۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے ، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل ،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو مذکورہ بالا مطالبات پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان چاروں مطالبات کو کچھ اس طرح سے ترتیب دینا ہوگا ۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو" ،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی ، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھامطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں" سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔
انجینئر منظور پروانہ ، چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ
سوشل میڈیا کے استعمال کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے نو جوانوں میں اپنے بنیادی حقوق سے آگاہی اور اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے کا عزم انتہائی حوصلہ افزا اور قابل ستائش ہے ۔ لیکن نوجوان نسل کو چائیے کہ وہ پہلے ان مطالبات کو سمجھنے کی کوشش کرے جو یہاں کے عوام گزشتہ ستر سالوں سے کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان ان مطالبات کو نہیں مان رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت کے گزرنے کے بعد پتہ چلے کہ جن مطالبات کو منوانے کے لئے احتجاج کئے، دھرنے دیے، اور لانگ مارچ کئے وہ مطالبات سرے سے ہی غلط تھے ۔ اس طرح کے ٹائم پاس اور سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کئے جانے والے مطالبات کی مختصر تاریخ نوجوانوں کی یاد دہانی کے لئے ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آج کا قومی شعور رکھنے والا نوجوان ماضی کی غلطیوں سے سیکھے اور غلط قسم کے مطالبات کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔
گلگت بلتستان کے عوام کی سر فہرست مطالبہ" آئینی حقوق دو "ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کا پاکستان سے غیر مشروط الحاق ہو چکا ہے ، اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ مہا راجہ ہری سنگھ کی راجدانی سے آزاد ہونے کے بعد گلگت بلتستان مختصر مدت میں میجر براؤن کی کاؤشوں سے پاکستان کے زیر انتظام آیا تھا جسے گلگت بلتستان کی طرف سے الحاق کی یک طرفہ کوشش سمجھا جاتا ہے۔دراصل حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی ریاست جموں و کشمیر سے تعلق اور تقسیم ہندوستان فارمولے کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کی رائے کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور معاہدہ کراچی کر کے گلگت بلتستان پر انتظامی کنٹرول حاصل کر لیا تھا کیونکہ حکومت پاکستان اس حقیقت سے واقف تھی کہ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان میں الحاق کی بنیاد پر ضم کر دیا گیا تو ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ کی انڈیا کے ساتھ الحاق کو بھی تحفظ حاصل ہوگا جس کی وجہ سے مہا راجہ کے ماتحت راجوں ( گلگت بلتستان کے )کی الحاق خود بخودکالعدم ہوئے گی اور گلگت بلتستان سمیت پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کے پاس چلا ئے گا ۔لہذا پوری ریا ست جموں و کشمیر کوحاصل کرنے کی حکمت عملی کے تحت گلگت بلتستان کے عوا م کی پاکستان سے الحاق کی خواہش کو سرے سے ہی رد کر دیا گیااور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل ایک انتظامی یونٹ بنائی گئی جو کہ آج بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے نام سے موجود ہے۔
پاکستان میں چار دفعہ آئین سازی ہوئی لیکن چاروں دفعہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کو ایک بے معنی مطالبے کے پیچھے لگا دیا گیا کہ گلگت بلتستان کو" آئینی حقوق دو"پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبران اور دانشوروں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جاتا ہے تو وہ زیر لب مسکرا کر کہتے ہیں کہ" کتنی سادہ قوم ہے آئین میں شامل ہی نہیں اور آئین میں حق مانگتے ہیں" پتہ نہیںآئین کے کس شق کے مطابق حقوق مانگتے ہیں؟ عوام ہر آنے والی حکومت سے یہ بے مقصد مطالبہ کربیٹھتی ہے اور حکمران کمیٹیاں بنا کر یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق اس دن ملے گی جب مسئلہ کشمیر حل ہوگا اور خطہ پاکستان کی آئین میں شامل ہوگا ۔ فی الحال اس خطے کو پاکستان اپنی آئین میں شامل نہیں کر سکتی ۔ اس مسلمل انکار کے باوجود گلگت بلتستان والے اس بے مقصد اور بے معنیٰ مطالبے کو دہرائے رکھنے پر بضد ہیں ۔آئینی حقوق دو کا نعرہ ہی گلگت بلتستان کے عوام کو ان کی بنیادی حقوق ( متنازعہ خطے کے حقوق )سے محروم رکھنے کا سبب اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کی وجہ بن رہی ہے ۔
دوسرا مطالبہ گلگت بلتستان" پانچوں صوبہ" والا ٹرک کی لال بتی ہے جس کے پیچھے لگا کر قوم کا ستر سال ضائع کیا گیا ،اس مطالبے کو مسلکی کفن پہنا کر ایک مقدس مطالبہ بنایا گیا اور عوام سے ووٹ لیا جاتا رہا اور اب بھی ایمان و عقیدے کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کسی بھی علاقے کو کسی بھی ملک کا صوبہ بننے کے لئے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ، پہلا کہ وہ علاقہ آزاد اور خود مختار ہو، دوسراکہ وہ خطہ اس ملک کا آئینی اور جغرافیائی حصہ ہو جس کا صوبہ بننا ہے، تیسرا اس خطے کی آبادی ا ور وسائل صوبائی سیٹ اپ کو چلانے کی استطاعت رکھتا ہو، چوتھا کہ یہ ڈیمانڈ عوامی اکثریتی رائے کے مطابق ہو۔ یہاں گلگت بلتستان کسی بھی ایک شرط پر پورا نہیں اترتی کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے ، اور یہاں کی 40 فیصد آبادی صوبے کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان گلگت بلتستان کو اپنی آئین میں شامل کرنے سے بھی قاصر ہے ایسی صورت حال میں ڈائریکٹ صوبہ بنانے کا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، ۔ایسے نا ممکن مطالبات کر کے مخصوص سیاسی جماعتوں کے سربراہان یہ ثابت کرنا چا ہتے ہیں کہ عوام یاتو انتہائی بے وقوف اور جاہل ہیں یا یہ سیاسی جما عتیں اس مطالبے کی آڑ میں حکومت پاکستان کو بلیک میل کر کے ذاتی مفادات حاصل کر رہی ہیں۔
تیسرا مطالبہ" ٹیکس لو، حق دو "کا مطا لبہ ہے ، بین الاقوامی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں ٹیکس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا تو ٹیکس لو حق دو کا نعرہ چی معنیَٰ ۔ گلگت بلتستان کی عوام پر ٹیکس لگانا ہی نہیں چائیے کیا اگر گلگت بلتستان کے دو افراد کو پاکستان کے قومی اسمبلی میں عارضی نمائندگی دینے کے بعد عوام ٹیکس دینے کے لئے رضامند ہو ئے گی ۔ ٹیکس کا تعلق کاروبار، لین دین، تجارت اور آمد ن سے ہے ، گلگت بلتستان کے عوام ہر قسم کی ٹیکس دے رہی ہے ، ڈاک خانہ کی ٹکٹ سے لے کر موبائل چارج تک ، صابن سے لے کو دوائی تک ، تنخواہوں سے لے کر اے ٹی ایم مشین کی استعمال تک ، تمام تر ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ ٹیکس کو گلگت بلتستان والے ستر سالوں سے ہی دے رہی ہے۔ کیا عوام کو بڑی حد تک موبلائز کر کے احتجاج کرنے کے بعد یہ تمام ٹیکس ختم ہوئے ۔ ٹیکس تحریک کے مسئلہ پر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور عوام ایک بار پھر ٹیکس کے نرغے ہیں ہیں اس بار یہی بتایا جاتا ہے کہ ٹیکس عوامی ایکشن کمیٹی کی رضامندی اور ڈمبوداس معاہدے کی روشنی میں عوامی خواہشات کے مطابق لگ رہی ہے۔" نماز بخشوانے گیاروزہ بھی فرض ہوا " کے مصداق اب گلگت بلتستان پر ٹیکس گلگت بلتستان کونسل نہیں بلکہ فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے قوانین کے تحت دوبارہ لگی ہے ۔
چوتھا مطالبہ خالصہ سرکار کے بارے میں سامنے آ رہا ہے، اس مطالبے کی آڑ میں عوا م کو پہلے" خالصہ سرکار" کے خلاف ورغلایا جا رہا ہے کہ یہ نظام ڈوگروں کا ہے اور اب چونکہ ڈوگروں سے آزادی لی گئی ہے لہذا اس قانون کو بھی ختم ہونا چائیے ۔ یہ مطالبہ خطے کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے کہ خالصہ سرکار نظام کو ختم کیا جائے، اگر محکمہ مال کی ریکارڈ سے "خالصہ سرکار" کا لفظ ہذف کر کے اس کی جگہ" پاک سرکار" یا "گلگت بلتستان سرکار" لکھ دی گئی تو اس کے نتائج کیا ہونگے عوام کو خود سمجھ لینا ہوگا ۔
گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے ، اس لئے یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی ، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے ، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں ، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی( آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات( غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے ، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی ،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی ۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے ۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی ۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کی اصلاحات کا علم ہے تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے ، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3 ۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے ، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
6 ۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7 ۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے ، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل ،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو مذکورہ بالا مطالبات پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان چاروں مطالبات کو کچھ اس طرح سے ترتیب دینا ہوگا ۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو" ،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی ، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو،
چوتھامطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں" سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔