Thursday, August 2, 2018

Gilgit Baltistan : Govt Imposed Black Law in Disputed Region

پریس ریلیز( سکردو)
گلگت بلتستان میں سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت شیدول فور کا استعمال انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی ہے، گو کہ گلگت بلتستان متنازعہ ہونے اور کسی ملک کی آئین میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر کالا دائرہ ( Black Hole)کہلاتا ہے اور اس کالے دائرے میں رہنے والوں پر کالے قوانین(Black Laws) کا اطلاق آئین پاکستان اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔ گلگت بلتستان سے شیڈول فور کا کالا قانون فوری طور پر ختم کرتے ہوئے یہاں کے عوام کو جینے کی آزادی دی جائے ، ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چئرمین منظور پروانہ نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام آزادانہ حق رائے دہی کے ذریعے نیا پاکستان (New Pakistan)بنا رہی ہے جبکہ گلگت بلتستان کے عوام پر کالے قوانین لاگو کر کے خطے کو کالا گلگت بلتستان ( Black Gilgit Baltistan)بنایا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام پر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کو جرم بنا دیا گیا ہے ، یہاں ظلم و ستم ، نا انصافی اور زیادتی پر فریاد کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ، اگر گلگت بلتستان کے عوام یہاں کے وسائل اور حکومت پاکستان کے درمیان رکاوٹ ہے تو یہاں کے حق پرست قائدین اور سیاسی کارکنوں کویک ہی دفعہ مار دیا جائے تاکہ یہاں ظلم و بربریت پر آواز اٹھانے اور حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والا کوئی بھی باقی نہ رہے۔
منظور پروانہ نے کہا کہ چند سرکاری ملازمین نے اپنی نوکری پکا کرنے اور ترقی پانے کی ہوس میں ہمیں شیڈول فور میں ڈالنے کے لئے غلط رپورٹنگ کی ہیں ایسے افراد پیشہ وارانہ بد دیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چائیے ۔ شیڈول فورگلگت بلتستان کے چند سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف انتقامی و انتظامی کاروائی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے، اگر آج 140 افراد پر شیڈول فور لگایا گیا ہے تو کل گلگت بلتستان کی دو ملین عوام کا نام شیڈول فور میں ہوگا۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اس کالے قانون کو گلگت بلتستان سے ختم کروانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔

جاری کردہ

منظور پروانہ
چئیرمین
گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ

Monday, July 9, 2018

Gilgit Baltistan: 38 right activists placed on Schedule 4th

  • Gilgit: Schedule-four list released, More than 38 activists placed including Shokoor Khan Adv from Ghizer.
    Gilgit: (GB Herald report)
    Pakistan interior ministry issued the list of persons placed on Fourth Schedule of Anti-Terrorism Act, all around Pakistan Occupied Gilgit Baltistan. The new list contains names of more than 40 persons including lawyers, teachers, writers, political workers, nationalists, progressive and other rights activists of GB.
    Those who are inclduded in ...Schedule fourth of ATA from District Gizer are well known lawyer and writer Shokoor Khan Advocate from Yasin who is already facing ATA charges, Awami Action Committee leader Raja Mir Wazir Mir from Ishkomen , young nationalist leader Yawar Ali from Sherqila, Social Activist and teacher Nor Akbar Gohar from Singul, workers of BNF Gul Faraz And Shah Faraz from Yasin, Nazrab shah from singul .The list also contains Juma Mir, Assistant Commissioner (rt) Mushtaq, Raja Nasir, Shahid Hussain and others from Gilgit Distict, youth leader Nisar Karim from Hunza, Social media activist Yawar Abbas From Nagir District, GBUM chief Manzoor Parwana and Agha Ali Rizvi from Skardu District, Muhamad Ali Karimi from shigar District, young student leader of GBSM Ejaz Balti from Ganchay District, Shabbir Mayar , Shabbir Hussain and Asif Naji adv from Kharmang Disstrict.
    The names including in this list are peaceful activists who ask for rights peacefully mostly through their writing .
    On 8th july, in All Parties Confrence, held under Awami Action Committee in Gilgit, the speakers and leaders condemned the black laws of ATA imposed by Pakistan on peaceful activists of disputed region Gilgit Baltistan and also decided to launch anti-Schedule four movement all around Gilgit Baltistan.
    Via #Gilgit_Baltistan_Herald

Saturday, July 7, 2018

Gilgit Baltistan leaders placed on Anti Terror Act (4th Schedule )

    Gilgit Baltistan leaders placed on Anti Terror Act (4th Schedule )
    The Govt of Pakistan has placed the leaders of Gilgit Baltistan , Manzoor Parwana, Agha Ali Rizvi , Shabbir Mayar , Karimi Shigri Shaikh Karimi and Ejaz Balti on Schedule 4th an Anti terrorist Act  . Their Passports have been confiscated; account seized and banned them to participate in political activities (.Daily SALAM)

Tuesday, April 24, 2018

Gilgit Baltistan : Land Reform Act and Gilgit Baltistan

لینڈ ریفار مز ایکٹ اور گلگت بلتستان
انجینئر منظور پروانہ ، چئیرمین گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ
سوشل میڈیا کے استعمال کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے نو جوانوں میں اپنے بنیادی حقوق سے آگاہی اور اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے کا عزم انتہائی حوصلہ افزا اور قابل ستائش ہے ۔ لیکن نوجوان نسل کو چائیے کہ وہ پہلے ان مطالبات کو سمجھنے کی کوشش کرے جو یہاں کے عوام گزشتہ ستر سالوں سے کر رہی ہے لیکن حکومت پاکستان ان مطالبات کو نہیں مان رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت کے گزرنے کے بعد پتہ چلے کہ جن مطالبات کو منوانے کے لئے احتجاج کئے، دھرنے دیے، اور لانگ مارچ کئے وہ مطالبات سرے سے ہی غلط تھے ۔ اس طرح کے ٹائم پاس اور سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کئے جانے والے مطالبات کی مختصر تاریخ نوجوانوں کی یاد دہانی کے لئے ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آج کا قومی شعور رکھنے والا نوجوان ماضی کی غلطیوں سے سیکھے اور غلط قسم کے مطالبات کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔
گلگت بلتستان کے عوام کی سر فہرست مطالبہ" آئینی حقوق دو "ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کا پاکستان سے غیر مشروط الحاق ہو چکا ہے ، اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ مہا راجہ ہری سنگھ کی راجدانی سے آزاد ہونے کے بعد گلگت بلتستان مختصر مدت میں میجر براؤن کی کاؤشوں سے پاکستان کے زیر انتظام آیا تھا جسے گلگت بلتستان کی طرف سے الحاق کی یک طرفہ کوشش سمجھا جاتا ہے۔دراصل حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی ریاست جموں و کشمیر سے تعلق اور تقسیم ہندوستان فارمولے کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کی رائے کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور معاہدہ کراچی کر کے گلگت بلتستان پر انتظامی کنٹرول حاصل کر لیا تھا کیونکہ حکومت پاکستان اس حقیقت سے واقف تھی کہ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان میں الحاق کی بنیاد پر ضم کر دیا گیا تو ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ کی انڈیا کے ساتھ الحاق کو بھی تحفظ حاصل ہوگا جس کی وجہ سے مہا راجہ کے ماتحت راجوں ( گلگت بلتستان کے )کی الحاق خود بخودکالعدم ہوئے گی اور گلگت بلتستان سمیت پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کے پاس چلا ئے گا ۔لہذا پوری ریا ست جموں و کشمیر کوحاصل کرنے کی حکمت عملی کے تحت گلگت بلتستان کے عوا م کی پاکستان سے الحاق کی خواہش کو سرے سے ہی رد کر دیا گیااور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل ایک انتظامی یونٹ بنائی گئی جو کہ آج بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے نام سے موجود ہے۔
پاکستان میں چار دفعہ آئین سازی ہوئی لیکن چاروں دفعہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کو ایک بے معنی مطالبے کے پیچھے لگا دیا گیا کہ گلگت بلتستان کو" آئینی حقوق دو"پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبران اور دانشوروں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جاتا ہے تو وہ زیر لب مسکرا کر کہتے ہیں کہ" کتنی سادہ قوم ہے آئین میں شامل ہی نہیں اور آئین میں حق مانگتے ہیں" پتہ نہیںآئین کے کس شق کے مطابق حقوق مانگتے ہیں؟ عوام ہر آنے والی حکومت سے یہ بے مقصد مطالبہ کربیٹھتی ہے اور حکمران کمیٹیاں بنا کر یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق اس دن ملے گی جب مسئلہ کشمیر حل ہوگا اور خطہ پاکستان کی آئین میں شامل ہوگا ۔ فی الحال اس خطے کو پاکستان اپنی آئین میں شامل نہیں کر سکتی ۔ اس مسلمل انکار کے باوجود گلگت بلتستان والے اس بے مقصد اور بے معنیٰ مطالبے کو دہرائے رکھنے پر بضد ہیں ۔آئینی حقوق دو کا نعرہ ہی گلگت بلتستان کے عوام کو ان کی بنیادی حقوق ( متنازعہ خطے کے حقوق )سے محروم رکھنے کا سبب اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کی وجہ بن رہی ہے ۔
دوسرا مطالبہ گلگت بلتستان" پانچوں صوبہ" والا ٹرک کی لال بتی ہے جس کے پیچھے لگا کر قوم کا ستر سال ضائع کیا گیا ،اس مطالبے کو مسلکی کفن پہنا کر ایک مقدس مطالبہ بنایا گیا اور عوام سے ووٹ لیا جاتا رہا اور اب بھی ایمان و عقیدے کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کسی بھی علاقے کو کسی بھی ملک کا صوبہ بننے کے لئے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ، پہلا کہ وہ علاقہ آزاد اور خود مختار ہو، دوسراکہ وہ خطہ اس ملک کا آئینی اور جغرافیائی حصہ ہو جس کا صوبہ بننا ہے، تیسرا اس خطے کی آبادی ا ور وسائل صوبائی سیٹ اپ کو چلانے کی استطاعت رکھتا ہو، چوتھا کہ یہ ڈیمانڈ عوامی اکثریتی رائے کے مطابق ہو۔ یہاں گلگت بلتستان کسی بھی ایک شرط پر پورا نہیں اترتی کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے ، اور یہاں کی 40 فیصد آبادی صوبے کے حق میں نہیں ہے۔ پاکستان گلگت بلتستان کو اپنی آئین میں شامل کرنے سے بھی قاصر ہے ایسی صورت حال میں ڈائریکٹ صوبہ بنانے کا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، ۔ایسے نا ممکن مطالبات کر کے مخصوص سیاسی جماعتوں کے سربراہان یہ ثابت کرنا چا ہتے ہیں کہ عوام یاتو انتہائی بے وقوف اور جاہل ہیں یا یہ سیاسی جما عتیں اس مطالبے کی آڑ میں حکومت پاکستان کو بلیک میل کر کے ذاتی مفادات حاصل کر رہی ہیں۔
تیسرا مطالبہ" ٹیکس لو، حق دو "کا مطا لبہ ہے ، بین الاقوامی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں ٹیکس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا تو ٹیکس لو حق دو کا نعرہ چی معنیَٰ ۔ گلگت بلتستان کی عوام پر ٹیکس لگانا ہی نہیں چائیے کیا اگر گلگت بلتستان کے دو افراد کو پاکستان کے قومی اسمبلی میں عارضی نمائندگی دینے کے بعد عوام ٹیکس دینے کے لئے رضامند ہو ئے گی ۔ ٹیکس کا تعلق کاروبار، لین دین، تجارت اور آمد ن سے ہے ، گلگت بلتستان کے عوام ہر قسم کی ٹیکس دے رہی ہے ، ڈاک خانہ کی ٹکٹ سے لے کر موبائل چارج تک ، صابن سے لے کو دوائی تک ، تنخواہوں سے لے کر اے ٹی ایم مشین کی استعمال تک ، تمام تر ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ ٹیکس کو گلگت بلتستان والے ستر سالوں سے ہی دے رہی ہے۔ کیا عوام کو بڑی حد تک موبلائز کر کے احتجاج کرنے کے بعد یہ تمام ٹیکس ختم ہوئے ۔ ٹیکس تحریک کے مسئلہ پر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور عوام ایک بار پھر ٹیکس کے نرغے ہیں ہیں اس بار یہی بتایا جاتا ہے کہ ٹیکس عوامی ایکشن کمیٹی کی رضامندی اور ڈمبوداس معاہدے کی روشنی میں عوامی خواہشات کے مطابق لگ رہی ہے۔" نماز بخشوانے گیاروزہ بھی فرض ہوا " کے مصداق اب گلگت بلتستان پر ٹیکس گلگت بلتستان کونسل نہیں بلکہ فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے قوانین کے تحت دوبارہ لگی ہے ۔
چوتھا مطالبہ خالصہ سرکار کے بارے میں سامنے آ رہا ہے، اس مطالبے کی آڑ میں عوا م کو پہلے" خالصہ سرکار" کے خلاف ورغلایا جا رہا ہے کہ یہ نظام ڈوگروں کا ہے اور اب چونکہ ڈوگروں سے آزادی لی گئی ہے لہذا اس قانون کو بھی ختم ہونا چائیے ۔ یہ مطالبہ خطے کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے کہ خالصہ سرکار نظام کو ختم کیا جائے، اگر محکمہ مال کی ریکارڈ سے "خالصہ سرکار" کا لفظ ہذف کر کے اس کی جگہ" پاک سرکار" یا "گلگت بلتستان سرکار" لکھ دی گئی تو اس کے نتائج کیا ہونگے عوام کو خود سمجھ لینا ہوگا ۔ 
گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے ، اس لئے یہاں ریاست کی قانون اس وقت تک نا فذاالعمل رہے گی جب تک اس خطے کی اپنی کوئی آئین نہیں بنتی یا کسی آئین میں شامل نہیں ہو جاتی۔ لہذا یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رولز موجود ہے اور تنازعہ کشمیر کے حل تک رہے گی، سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے مطابق گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی ، جنگلات و معدنیات و چرا گاہیں عوام کی ملکیت ہے جسے ریاست نے یہاں کے عوام کے درمیان حد بندی کر کے ان تمام زمینوں کی عوام کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ہیں،گھاس چرائی کا معاوضہ بھی ریاست ہر علاقے کے عوام سے مالیہ کی صورت میں وصول کر چکی ہے ، اور سرکاری کاغذات میں اندراج بھی ہوئی ہیں ، اراضی کی درجہ بندی کر کے لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہے اور ریکارڈ مال میں درج کیاگیا ہے۔ اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر عوام کے زیر قبضہ اراضی ہیں جو ان کی ملکیت ہے، دوسرا اندرونی اراضی( آباد یا غیر آباد) ہے جو کہ شاملات کہلاتے ہیں یہ اراضی ملکیتی زمین سے ملحقہ شخص کی ملکیت ہے، تیسرا بیرون لین شاملات( غیر آباد بنجر) ہیں جس پر گاؤں کے تمام لوگوں کا برابر کاحق ہے ، چوتھی قسم جنگلات اور پہاڑہے جو کہ علاقے کے مواضعات میں منقسم ہیں اور حدود تعین کئے گئے ہیں اور کاغذات مال میں عملدرآمد ہے۔ ریاست کی اس زمینی منصوبہ بندی کو "نظام بندوبست" کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، اس نظام بندوبست کے متبادل موجودہ حکومت کی طرف سے لینڈ ریفامز لانے کی باتیں نظام بندوبست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، اگر نظام بندوبست کو چھیڑا گیا تو گلگت بلتستان میں زمینوں کی تقسیم کا نظام در ہم بر ہم ہوگا۔ملکیتی شاملات ، شاملات دیہہ اور چراگاہ سب سرکاری زمین کہلا ئے گی۔زمین پر تنازعہ گلی محلے سے شروع ہوگی۔ چراگا ہ اور پہاڑی علاقے معدنیات کی وجہ سے سرکار کی ملکیت قرار پائے گی ،تمام بنجر اور داس حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔ جن چراگاہیں اور جنگلات میں معدنیات پائے جاتے ہیں وہ علاقے غیر مقامی لوگوں کے نام لیزکرنے کا حکومت کوجواز مل جائے گی ۔ اگر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو ختم کر کے نیا لینڈ ریفامز ایکٹ لائی گئی تو گلگت بلتستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ، ریاستی باشندے ایک ایک انچ زمین کو ترسے گی اور غیر ریاستی باشندے گلگت بلتستان کی زمینوں کے مالک بن جائیں گے۔ عوام کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے
کا فارمولا بھی انتہائی آسان بنایا جائے گا، عوامی ملکیتی اراضی سرکاری ادارے اور با اثر شخصیات کے نام انتقال ہوگا ، با اثر لوگ انتقال کو لے کر زمین پر قابض ہونگے ۔عدالتیں انتقال اور الاٹ منٹ کے مطابق فیصلے دیں گی ۔
مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کے ممبران سے کوئی شناسائی نہیں کہ کمیٹی ممبران لینڈمنیجمنٹ کا کتنا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ مجھے لینڈ ریفامز کمیٹی کی اصلاحات کا علم ہے تاہم لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے سیاسی عزائم کا پوشیدہ ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے ہوتے ہوئے اس پر عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے نیا لینڈ ریفامز کمیٹی کی تشکیل اور لینڈ ایکٹ لانے کی باتیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لینڈز ریفامز ایکٹ کے خط و خال میری عقل و فہم اور تجزیے کے مطابق کچھ اس طرح کی ہی ہو سکتے ہیں۔
1۔اس ایکٹ کے تحت خالصہ سرکار کی اصطلاح کو ڈوگروں سے منسوب کر کے ختم کی جا سکتی ہے ، اس کی جگہ گورنمنٹ لینڈز یا پاک سرکار کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام کو تاثر دی جا سکے کہ ہم نے ڈوگروں کی خالصہ سرکار کو ختم کیا ہے۔ 
2۔ گلگت بلتستان کی اہمیت کے حامل بنجر زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دے کر سرکار کی تحویل میں لی جا سکتی ہے۔ تاکہ عسکری و انتظامی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
3 ۔معدنیات اور قیمتی پتھر والی جگہوں کو قانون کے مطابق مائنگ اور انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ کی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے ، اور ان علاقوں کو لیز پر دے کر کان کنی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
4۔بے گھر لوگوں کے لئے منصوبہ کے نام پر بھی ہزاروں ایکڑز زمیں مختص کی جائے گی ان زمینوں کا بھی مالک حکومت ہوگی۔ 
5۔گلگت بلتستان میں انڈسٹری لگانے کے لئے بھی عوامی ملکیت کی ہزراوں ایکڑ زمین کو حکومتی ملکیت میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ 
6 ۔جن علاقوں میں لوگوں کا زمینوں پر اجتماعی تنازعہ چل رہا ہے ان کو بحق سرکار قرق کرنے کا شق بھی ایکٹ میں شامل ہوسکتاہے۔
7 ۔شاہراہ قراقرم سمیت گلگت بلتستان کی تمام شاہراہوں سے متصل بنجر زمینوں کو سرکاری اداروں اور کاروباری مقاصد کے لئے حکومتی تحویل میں لیا جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی شاملات اور شاملات دیہہ اراضی بھی حکومت کی ہو جائے گی۔ 
8۔ہزاروں ایکڑ عوامی ملکیتی زمین ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تجارتی و کاروباری مقاصد کے لئے دی جا سکتی ہے جیسے حال ہی میں کئی ایکڑز زمین این ایل سی کو چھلمس داس اور مناور میں الاٹ کئے گئے ہیں اور زمینی تنازعہ عدالت میں ہے۔ 
9َََّ۔گلگت بلتستان میں ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائیٹز، کارپوریٹ ہوٹلز، سیاحتی سینٹرز اور دیگر مقصد کے لئے بھی ہزاروں اراضی کی ضرورت ہے ، ان ضروریا ت کو پورا کرنے کے لئے بھی لینڈ ریفامز کی آڑ میں عوامی ملکیتی ارضی کو ہتھیا لی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی تعلیم یافتہ نئی نسل ،سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں اور نوجوانوں کو مذکورہ بالا مطالبات پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان چاروں مطالبات کو کچھ اس طرح سے ترتیب دینا ہوگا ۔
پہلا مطالبہ یہ کہ" آئینی حقوق دو "نہیں بلکہ گلگت بلتستان کو" آئین دو اور عوام کو حق حکمرانی دو" ،
دوسرا مطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بلکہ تنازعہ کشمیر کے حل ہونے تک" آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ دو "،
تیسرا مطالبہ یہ کہ جب تک گلگت بلتستان متنازعہ رہے گی ، گلگت بلتستان کو" ٹیکس فری زون "قرار دو، 
چوتھامطالبہ یہ کہ گلگت بلتستان میں کسی بھی قسم کا لینڈ ریفامز منظور نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں" سٹیٹ سبجیکٹ رولز "کی خلاف ورزی بند کرو اور زمینوں پر عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرو۔ 
اگر آپ کے مطالبات معروضی حالات اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے تناظر میں ہونگے تو حکومت پاکستان کو بھی ان مطالبات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو گی ا ور دنیا بھی آپ کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرے گی۔ جہاں تک لینڈ ریفارمز ایکٹ کا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ ایکٹ کسی بھی صورت عوامی ملکیتی قانون سٹیٹ سجیکٹ روزلز کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔ عوام کو آنے والی نسلوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لئے اس ایکٹ کو پوری عوامی طاقت سے روکنا ہوگا۔

Wednesday, February 14, 2018

Gilgit Baltistan : Humane Right Activist sent Prison in Gilgit

Gilgit Baltistan Humane:  Right Activist sent Prison in Gilgit
GILGIT: Ehsan Ali Advocate, the president of Supreme Appellate Court Bar has been detained by the Police on 11 February 2018, from his home.
Ehsan Ali Advocate is a prominent progressive political and right activist of Gilgit Baltistan. He is the chairman of Awami Action Tehreek (AAT) and the former chairman of Awami Action Committee (AAC) Gilgit Baltistan.
He has detained under Anti-Terrorism Act (ATC) on a complaint of a local person over sharing a post related to Iranian revolution on FB.
He was produced before ATA Court on Monday, and sent to prison.
An anti-Ehsan Advocate campaign has been started on social media and wall chalking has been done against him in the city to trapped Ehsan Advocate is the false case.
The leaders of the Awami Workers Party, Awami Action Committee, Gilgit Baltistan United Movement, Karakuram National Movement, Awami Action Tehreek, Youth Alliances, BSF, BNSO, BYA, and PYF have expressed concern over the arrest of Ehsan Ali Advocate under trumped up charges.

They demanded the immediate release of him and other nationalist and progressive political activists of Gilgit Baltistan.
FIR COPY